کراچی – پاکستان کی نفاذِ قانون کی ایجسیوں نے مجرموں اور عسکریت پسندوں کے خلاف پانچ برس قبل متفقہ طور پر شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد پاکستان کے معاشی صدرمقام کراچی میں تشدد کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستان کے سب سے زیادہ پرتشدد شہروں میں سے ایک، کراچی، گزشتہ دہائی میں تشدد کی گرفت میں رہا ہے، جو 2007-2013 تک اپنے عروج پر تھا۔ کراچی پولیس کے مطابق، اس عرصہ کے دوران دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگز اور فرقہ ورانہ حملوں سمیت پرتشدد جرائم میں ہزاروں شہری قتل ہوئے۔
ایکسپریس ٹربیون نے جنوری 2014 میں نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ صرف 2013 ہی میں ایک اندازے کے مطابق، پرتشدد جرائم میں اضافہ 2,700 جانوں کے ضیاع کا باعث بنا، جس سے یہ کراچی کا مہلک ترین سال بن گیا۔
اس کے ردِّ عمل میں اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف کی سربراہی میں حکومتِ پاکستان نے 5 ستمبر، 2013 کو ایک بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے متعدد جرائم پیشہ گروہوں، مقامی گینگز اور کالعدم عسکریت پسند گروہوں کو ٹارگٹ کیا۔
30 اگست کو شائع ہونے والے ان کاوشوں کے ایک تخمینہ کے مطابق، شہر کو سیکیورٹی اور مجرمانہ خدشات سے نجات دلانے کے مقصد سے کیا گیا کراچی آپریشن ہر قسم کے پر تشدد گروہوں کو کچلنے میں مؤثر رہا ہے۔
جرائم پیشہ افراد پر کریک ڈاؤن
ریجنرز کی پانچ سالہ کارکردگی کی رپورٹ (2013-2018) میں کہا گیا کہ سندھ رینجرز کی جانب سے کیے گئے آپریشنز کے مرہونِ منّت شہر میں استحکام لوٹ آیا۔
سندھ رینجرز کے ایک اعلیٰ عہدیدار جنہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں، نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "گزشتہ پانچ برسوں کے دوران طالبان عسکریت پسندوں، مجرمانہ گینگز، فرقہ ورانہ گروہوں اور نسلی سیاسی جماعتوں کی عسکری شاخوں کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے۔"
رپورٹ کے مطابق، سندھ رینجرز نے ستمبر 2013 میں آپریشن کے آغاز سے اب تک 14,327 چھاپے مارتے ہوئے 10,716 ملزمان کو گرفتار کیا ، جنہیں انہوں نے پولیس کے حوالہ کر دیا۔
رپورٹ میں حوالہ دیا گیا کہ ان گرفتاریوں میں 2,189 دہشتگردی کے ملزمان اور 1,826 ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے ملزمان شامل ہیں۔ دیگر 786 پر بھتہ خوری کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام تھا، اور 193 اغوا برائے تاوان کے ملزم تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران سندھ رینجرز نے کراچی میں اپنے آپریشنز کے دوران 29 سپاہی کھو دیے۔ دیگر 103 اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن کے آغاز سے اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگز، بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
کراچی میں 2014 میں دہشتگردی کے 66 واقعات 2017 میں کم ہو کر صفر ہو گئے۔ اسی طرح سے ٹارگٹ کلنگ 2013 کی 965 کی تعداد سے کم ہو کر 2017 اور 2018 میں بالترتیب 45 اور دو ہو گئیں۔
درایں اثناء 2013 میں ہونے والے بھتہ خوری کے 1,524 واقعات کم ہو کر 2018 میں 31 رہ گئے۔ 2013 میں اغوا برائے تاوان کے 174 واقعات رواں برس اب تک کم ہو کر پانچ تک آ گئے ہیں۔
نمایاں بہتری
سیکیورٹی آپریشنز کو کور کرنے والے کراچی کے ایک صحافی ثاقب صغیر نے کہا کہ کراچی میں امنِ عامہ کی صورتِ حال میں نمایاں بہتری پانچ برس قبل شروع کیے گئے سیکیورٹی کریک ڈاؤن سے منسوب کی جا سکتی ہے۔
صغیر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "خواہ طالبان عسکریت پسندوں [سے متعلقہ] ہو، نسلی سیاسی جماعتیں ہوں یا جرائم پیشہ گروہ ہوں، کراچی کے بشیش رہائشی اور بڑے کاروبار ہر قسم کی مجرمانہ سرگرمی کے لیے ایک زرخیز زمین رہے ہیں۔"
مقامی تاجروں اور صنعت کاروں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ کراچی کی امنِ عامہ کی صورتِ حال میں واضح طور پر بہتری آئی ہے۔
شہر میں انجم ہائے تاجران کے ایک اتحاد، آل کراچی تاجر اتحاد کے ڈائرئکٹر عتیق میر نے کہا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔
میر نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، "[ماضی میں کراچی] ان نامعلوم شرپسندوں کے چند گھنٹوں کے نوٹس پر بند ہو جاتا تھا، جو – ’نامعلوم افراد‘ [عسکریت پسندوں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح] کے نام سے معروف تھے—اور قومی خزانے کے لیے بڑے نقصانات کا باعث بنتا تھا۔"
انہوں نے کہا، "رینجرز اور پولیس نے ان مجرموں پر کامیابی سے کریک ڈاؤن کیا جو ملک کی معیشت کو اپاہج کرنا چاہتے ہیں۔"