سلامتی

کراچی میں تشدد میں تیزی سے کمی کا سہرا سندھ رینجرز کے سر ہے: رپورٹ

ضیاء الرّحمٰن

4 دسمبر کو کراچی میں ایک امن ریلی میں سندھ رینجرز مارچ کر رہے ہیں۔ رینجرز نے 2016 میں اپنی سالانہ آپریشنز رپورٹ میں نمایاں کامیابیوں کا حوالہ دیا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

4 دسمبر کو کراچی میں ایک امن ریلی میں سندھ رینجرز مارچ کر رہے ہیں۔ رینجرز نے 2016 میں اپنی سالانہ آپریشنز رپورٹ میں نمایاں کامیابیوں کا حوالہ دیا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی — رینجرز کی سالانہ آپریشنز رپورٹ کے مطابق اس نیم فوجی فورس نے کراچی سے جرم اور دہشتگردی کی بیخ کنی کی غرض سے گزشتہ برس کراچی میں جاری آپریشن میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔

29 دسمبر کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ستمبر 2013 میں آپریشن کے آغاز سے اب تک کراچی میں تشدد اور دہشتگردی کم ترین سطح پر ہے۔

یہ اعداد و شمار غیر معمولی ہیں کیوں کہ قبل ازاں کراچی تسلسل سے پاکستان کا پر تشدد ترین شہر تھا، جو ہر برس ہزاروں جانیں لیتا۔

رپورٹ کے اعدادوشمار

رپورٹ کے مطابق، 2016 میں بھتہ خوری کے مقدمات میں 93 فیصد کمی، ٹارگٹ کلنگز میں 91 فیصد کمی، اغوا برائے تاوان میں 86 فیصد کمی اور دہشتگردی کے سانحات میں 72 فیصد کمی دیکھی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ رینجرز نے 1,992 آپریشنز کیے جن کے باعث 2,847 ملزمان گرفتار ہوئے اور 1,845 ہتھیار ضبط کیے گئے۔ گرفتار شدگان میں 350 کالعدم گروہوں کے دہشتگرد تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن کے تمام تر دورانیہ میں ٹارگٹ کلنگز کی تعداد 2013 میں 965 سے کم ہو کر 2016 میں 86 رہ گئی۔

2016 میں رینجرز نے 446 ملزمان کو گرفتار کیا جن پر ٹارگٹ کلنگز میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ ان میں سے 348 سیاسی جماعتوں کی عسکری شاخوں سے تھے، 11 فرقہ ورانہ گروہوں سے منسلک تھے اور 87 شہر کے علاقہ لیاری میں کام کرنے والے جرائم پیشہ گینگز سے تھے۔

رپورٹ کے مطابق، جبری بھتہ خوری کے واقعات بھی 2013 میں 1,524 سے کم ہو کر 2016 میں 99 تک پہنچ گئے۔

رینجرز نے 72 ملزمان کو جبری طور پر روپیہ ہتھیانے میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا، جن میں سے 26 اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث تھے۔ مزید برآں رینجرز نے 2016 میں 13 یرغمالوں کو رہا کرانے کا بھی دعویٰ کیا۔

دہشتگردی کی کاروائیاں 2013 میں 57 سے کم ہو کر 2016 میں 16 رہ گئیں۔

تاجر مطمئن، کاروبار دوبارہ کھل گئے

ستمبر 2013 میں رینجرز کی قیادت میں شہر بھر میں کریک ڈاؤن کے آغاز سے قبل سیاسی جماعتوں اور طالبان گروہوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کی برسوں طویل لہر نے کاروباروں کو اپاہج کر دیا اور شہر کے باسیوں پر معاشی مشکلات مسلط کر دیں۔

رینجرز کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، جنوری 2012 اور ستمبر 2013 کے درمیان شہر میں 43 ”جبری ہڑتالیں“ (جن میں کوئی عسکریت پسند یا کوئی دیگر گروہ تاجروں کو دھمکا کر ان کے کاروبار بند کراتا ہے) ریکارڈ کی گئیں۔

تب سے شہر میں کوئی جبری ہڑتال نہیں دیکھی گئی۔

کاروبار مالکان دوبارہ سے معمول کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت حاصل کر کے خوش ہیں۔

کراچی کی انجمن ہائے تاجران کے ایک اتحاد، آل کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر نے کہا، ”ہم رینجرز کی قیادت میں جاری کریک ڈاؤن سے مکمل طور پر مطمئن ہیں۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تشدد نے کئی مستحکم کاروباروں کومستقلاً بند ہو جانے پر مجبور کیا لیکن اب وہ دوبارہ کھل گئے ہیں اور ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک سے بھی نئی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔“

اسی طرح سے آپریشن سے قبل درجنوں بسوں، عوامی ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں اور ٹرکوں کو نذرِ آتش کیا جانا معمول تھا۔

شہر بھر کے ٹرانسپورٹرز کی انجمن، کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ سید ارشاد بخاری نے کہا، ”ٹرانسپورٹرز نے تشدد کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان اٹھایا۔“

تاہم، انہوں نے کہا، اب وہ سیکیورٹی خدشات کے بغیر کام کرتے ہیں۔

طالبان عسکریت پسند کمزور

سیکیورٹی تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی ایکٹیوسٹس کا کہنا ہے کہ طویل عرصہ سے جاری رینجرز کریک ڈاؤن، جسے اب تین برس سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، کی کامیابی کراچی میں طالبان کے متعدد نیٹ ورکس کو پہنچنے والے نقصان میں ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار محمّد نفیس نے کراچی میں خاص ابتری کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جون 2012 میں جب تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کراچی کے پشتون آبادی کے علاقوں پر تسلط حاصل کیا تو انہوں نے ان علاقوں کو نفاذِ قانون کی ایجنسیوں اور آزاد خیال سیاسی جماعتوں کے لیے ”نو گو ایریا“ بنا دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے لیے مالیات فراہم کرنے کے لیے بھتہ خوری اور اغوا کے ذریعے شہریوں کو دہشت زدہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اب رینجرز آپریشن کے نتیجے میں سیکیورٹی صورتِ حال کافی حد تک بہتر ہو گئی ہے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”شہر میں کام کرنے والے ٹی ٹی پی دھڑوں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول بکھر چکا ہے اور ان کی کمین گاہیں تباہ ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں عسکریت پسندانہ سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔“

2012 میں طالبان کی جانب سے سہراب گوٹھ کے علاقہ کو تاخت و تاراج کیے جانے تک 1970 میں جنوبی وزیرستان ایجنسی سے کراچی ہجرت کرنے والے اشرف محسود اس علاقہ میں پر امن طور پر ٹرانسپورٹ کا کاروبار چلایا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے انہیں اپنی آمدنی کا 20 فیصد ٹی ٹی پی کی کراچی شاخ کی قیادت کے لیے ”عطیہ“ کرنے پر مجبور کیا۔

محسود نے کہا کہ انہوں نے ستمبر 2013 میں اس وقت چین کا سانس لیا جب نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے کراچی میں متعدد طالبان کو ہلاک کیا۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”[رینجرز] آپریشنز کا آغاز پشتونوں اور سیاسی فعالیت پسندوں کے لیے ایک اچھا شگون ہے، کیوں کہ نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے کراچی میں طالبان کے خلاف درحقیقت اقدامات کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

سندھ رینجرز بہترین فورس ہے۔ سندھ رینجرز زندہ باد

جواب

رینجرز نے کراچی میں امن قائم کیا ہے۔ سندھ کی نام نہاد سیاست کراچی میں امنِ عامہ کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ رینجرز کی موجودگی ضروری ہے۔

جواب

رینجرز کی کارکردگی کی ازحد پزیرائی کی جاتی ہے. بعد ازاں پولیس اور عدالتیں سیاسی گروہوں سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کو چھوڑ دیتے ہیں. بھتہ خوری اور چھوٹے جرائم ایک مرتبہ پھر عروج پر ہیں، جو کہ سیاسی جماعتوں اور دیگر گروہوں کے دھڑوں کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی محسوس ہوتی ہے. 2017 میں ایف آئی آر کے جلد اندراج کے لئے اقدامات کیے جانے چاہئیں تاکہ مجرمان فوری رہائی حاصل نہ کر سکیں. سیاسی جماعتوں کے مجرموں کی جانب سے چھپائے گئے ہتھیاروں کی بازیابی کے لئے فوری کاروائی کی ضرورت ہے. تاحال چند علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے جنگجو دھڑے موجود ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے لڑنے اور پولیس اہلکاروں کو ہدف بنانے میں ملوث ہیں. 2017 میں کراچی میں چھوٹےجرائم کو کچلنے، بینک ڈکیتی کی کوششوں، ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگرد حملوں کو ناکام بنانے کے لئے کاوشیں کی جانی چاہئیں.

جواب