کراچی -- پاکستان کی طرف سے ملک بھر میں متشدد انتہاپسند گروہوں پر کریک ڈاون کی کوششیں فرقہ ورانہ تشدد کو کم کرنے میں موثر رہی ہیں۔
پاکستانی سیکورٹی فورسز، نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) جو کہ حکومت کی طرف سے تیار کیا جانے والا جامع منصوبہ ہے، جسے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے 2015 میں تیار کیا گیا تھا، کے حصہ کے طور پر، عسکریت پسندی کے خلاف مہمات کو تیز کرتی رہی ہیں۔
اس منصوبے کا ایک مقصد "بنیاد پرستی پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات" کرنا ہے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی 2017 کے لیے سالانہ سیکورٹی رپورٹ کے مطابق، ایسی کوششوں سے مسلسل چوتھے سال فرقہ ورانہ تشدد میں کمی دیکھی گئی ہے۔
فرقہ ورانہ تشدد میں کمی
جنوری 2018 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق،2017 میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد گزشتہ سال سے 41 فیصد گر گئی"۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017 میں فرقہ ورانہ تشدد کے 24 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 2016 میں ہونے والے 34 واقعات سے 44 فیصد کم ہیں۔ 2015 میں ایسے 58 واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے۔
فرقہ ورانہ حملوں اور جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 2017 میں 29 فیصد کم ہوئی۔ یہ تعداد 2016 میں 104 تھی اور 2017 میں 74 ہو گئی۔ سال بھر میں ہونے والے فرقہ واریت سے متعلقہ حملوں میں 106 افراد زخمی ہوئے جو کہ 2016 کے مقابلے میں 34 فیصد کمی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی کی قومی اتھارٹی (نیکٹا) نے اپنی بریفنگز اور پالیسی کے کاغذات میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فرقہ ورانہ تشدد نمایاں طور پر کم ہوا ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "اگر آپ اس کا موازنہ ۔۔۔ 2014-2012 کے دورانیے میں ہونے والے فرقہ ورانہ حملوں کے اعداد و شمار سے کریں تو اب ایک واضح کمی موجود ہے"۔
کالعدم عسکری گروہ کمزور ہو گئے
قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے ملک بھر میں ۔۔۔ اہم راہنماوں کو گرفتار یا ہلاک کرنے سے ۔۔۔ فرقہ ورانہ گروہوں خصوصی طور پر لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) کا خاتمہ کر دیا ہے۔
پی آئی پی ایس کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کے مطابق، 2017 میں تقریبا 90 فیصد فرقہ ورانہ حملے سال کے پہلے چھہ مہینوں میں ہوئے۔ اس کے بعد کے مہینوں میں فرقہ ورانہ دہشت گرد گروہوں کے حملوں کی تعداد میں کمی آئی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "کمی کی سب سے بڑی وجہ کالعدم فرقہ ورانہ گروہوں --- ایل ای جے اور لشکرِ جھنگوی ال عالمی جو کہ ایل ای جے کا ذیلی گروہ ہے --- کے نیٹ ورکس کا سندھ اور بلوچستان کے صوبہ میں ٹوٹ پھوٹ جانا ہے۔
فروری 2016 میں پاکستانی فوج نے تین ہائی پروفائل عسکری کمانڈروں: ایل ای جے کے مرکزی لیڈر نعیم بخاری، ایل ای جے کراچی کے نائب سربراہ صابر خان جو کہ منا کے نام سے بھی مشہور ہیں اور فاروق بھٹی المعروف موسانا جو کہ بھارتی برصغیر میں القاعدہ کا راہنما ہے، کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔
سندھ اور بلوچستان صوبہ کے لیے ایل ای جے کے سربراہ آصف چھوٹو کو 18 فروری 2017 کو شیخوپورہ ڈسٹرکٹ، صوبہ پنجاب میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ 100 سے زیادہ فرقہ ورانہ قتل کی وجہ سے پاکستان کے مطبوب ترین دہشت گردوں کی فہرست پر تھا اور اس کے سر کی قمیت 3 ملین روپے (27,000 ڈالر) رکھی گئی تھی۔
کراچی پولیس نے ایل ای جے کراچی کے سربراہ سعد سر خان کو گزشتہ سال 6 اکتوبر کو زرینہ کالونی کے قرب و جوار میں ہلاک کر دیا تھا۔
حال ہی میں، بلوچستان کی پولیس نے 15 جنوری کو کوئٹہ میں شیرا لہری کو ہلاک کر دیا جو کہ اس صوبہ میں ایل ای جے کا سب سے مطلوب دہشت گرد تھا۔
فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا
سول سوسائٹی کی تنظیموں نے مختلف فرقوں کے علماء کو اکٹھا کرنے سے فرقہ ورانہ تشدد اور تنازعہ کو کم کیا ہے۔
مثال کے طور پر، اسلام آباد میں قائم پیس اینڈ ایجوکیشن فاونڈیشن (پی ای ایف) نے پاکستان بھر میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالموں اور مدرسوں کے اساتذہ کے ساتھ ورکشاپوں کا ایک سلسلہ منعقد کیا تاکہ فرقوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔
پی ای ایس کے ایک محقق مجتبی راٹھور نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ان ورکشاپس کو منعقد کرنے کا ہمارا بنیادی مقصد، مختلف فرقوں کے درمیان فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ راستوں کی شناخت کرنا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ ورکشاپوں میں شرکت کرنے والوں نے اتفاق کیا کہ فرقوں کے درمیان اختلافات کی بجائے مماثلتوں کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
مذہبی راہنماوں نے فرقہ پرستی سے بچنے کے لیے اپنے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے علماء جنہوں نے اکتوبر میں کراچی میں پی ای ایف کی ورکشاپ میں شرکت کی تھی، نے ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے خلاف ایک فتوی دینے کی تجویز پیش کی۔
15 جنوری کو1800 سے زیادہ علماء نے ایک فتوی جاری کیا جس میں خودکش حملوں کی مذمت کی گئی اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فرقہ ورانہ نفرت اور مسلح فرقہ ورانہ تنازعات اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
علماء نے حکومت کی طرف سے طالبان اور اس کے اتحادی فرقہ ورانہ گروہوں کے خلاف حکومت کے جاری کریک ڈاون کے لیے اپنی حمایت کا اعلان بھی کیا۔
buht khoob
جوابتبصرے 1