تجزیہ

ایرانی صدر کے دورۂ چین کو مخدوش ہوتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا ہے

از پاکستان فارورڈ

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چین کے تین روزہ دورے کے دوران۔ [vista.ir]

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی چین کے تین روزہ دورے کے دوران۔ [vista.ir]

چین اور ایران دونوں میں سرکاری طور پر چلنے والے ذرائع ابلاغ نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ بیجنگ کو گزشتہ ہفتے نتیجہ خیز اور دونوں ممالک کے مستحکم "تاریخی" اتحاد کی علامت قرار دیا تھا، مگر بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ دورہ حال ہی میں ایک دوسرے سے دور ہوئے ممالک کے مابین تناؤ کے وقت پر ہوا ہے۔

رئیسی کا دورہ ان کا چین کا پہلا ریاستی دورہ تھا، اس دوران 20 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں (ایم یو ایس) پر دستخط ہوئے۔

سخت گیر مشرق نیوز نے ایرانی وزارتِ خارجہ سے وابستہ تجزیہ کار محمد مرندی کے حوالے سے بتایا ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات "ایران کے لیے ایک بنیادی ترجیح رہیں گے"۔

انہوں نے کہا، "ایران اپنے تمام دوستوں کے لیے ایک بہت ہی قابلِ اعتماد شراکت دار ہے، اور چین کو بڑھتے ہوئے امریکی-چین تناؤ کے پیشِ نظر اس شراکت کی تیزی سے ضرورت ہو گی۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دسمبر میں ریاض میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملتے ہوئے۔ [بندر الجالود/سعودی شاہی محل/اے ایف پی]

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان دسمبر میں ریاض میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملتے ہوئے۔ [بندر الجالود/سعودی شاہی محل/اے ایف پی]

مارچ 2021 میں، ایران اور چین نے 25 سالہ "تزویراتی تعاون کے معاہدے" پر دستخط کیے تھے جس پر ایران میں بھرپور داخلی تنقید ہوئی تھی کیونکہ اس معاہدے کے مخالفین نے "ایران فروخت کرنے" کا الزام عائد کیا تھا.

معاہدے کے باوجود، ایران میں چینی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے، جس سے روس ملک کا سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار بن گیا ہے۔

ایرانی نائب وزیر برائے معیشت، علی فکری نے 29 جنوری کو کہا تھا کہ چین نے مارچ 2022 اور جنوری کے آخر کے درمیان "ایران میں 25 منصوبوں میں صرف 185 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی"۔

گزشتہ دو برسوں میں، بیجنگ نے ایران میں سالانہ 227 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے، لہٰذا، رئیسی اور شی کے درمیان دوروں کے تبادلے کو دونوں ممالک کے مابین پھوٹ کو بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

ایران، چین مشکلات میں

سرمایہ کاری میں کمی کے علاوہ، تہران اور بیجنگ کو حال ہی میں خلیجی ریاستوں کے ساتھ چین کے تعلق سمیت متعدد امور پر اختلافات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دسمبر میں، ایرانی وزارتِ خارجہ نے تہران میں چینی سفیر سے اس وقت عدم اطمینان کا اظہار کیا جب بیجنگ نے تین متنازعہ جزیروں – ابو موسیٰ، طنب الکبریٰ اور طنب الصغریٰ -- پر متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور ایران کی بجائے یو اے ای کی طرفداری کی تھی۔

یہ بیان شی کے سعودی عرب کے دورے کے دوران جاری کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ریاستوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

بیان میں، چین نے بھی ایران کو خطے میں اپنی مداخلت کو روکنے کی ضرورت سے اتفاق کیا تھا۔

جی سی سی کے اجلاس کے بعد، ایران میں چین کی کم سرمایہ کاری کے بارے میں اطلاعات شائع کی گئیں۔ اس کے برعکس، چین اس وقت سعودی عرب کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور اس کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

حالیہ خبروں کہ چین نے ایران کی وزارتِ خارجہ اور دیگر اہم سرکاری اداروں کو ہیک کیا ہے، نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید خراب کردیا ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے اقدامات یقینی طور پر ایران کے خود ساختہ سیاسی اور جغرافیائی سیاسی اصولوں کے منافی ہیں، لیکن دنیا کے بیشتر حصوں سے الگ تھلگ ہونے کے بعد، اسلامی جمہوریہ کے پاس بہت زیادہ متبادل نظر نہیں آتے۔

دھوکہ دہی کی کارروائیاں

حالیہ تناؤ ان کے دورے کے دوران رئیسی کے بیانات میں بھی واضح تھا۔

انہوں نے کہا ، "ایران اور چین کے تعلقات آگے بڑھے ہیں، لیکن جو کچھ کیا گیا ہے اس سے بہت دور ہے جو ہونا چاہیے تھا، اور تلافی کے لیے مزید اقدامات اٹھائے جانے چاہیئیں"۔

رئیسی نے چینی صدر کے "اختراعی" بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی)، یا ون بیلٹ، ون روڈ (او بی او آر) کی تعریف کی، انہوں نے مزید کہا کہ ایران اس سلسلے میں کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔

ایران کے مقامی ایک سیاسی مبصر نے گمنام رہنے کی خواہش کے ساتھ کہا، "شی نے رئیسی کو جو دعوت دی ہے وہ حال ہی میں دوری اختیار کرنے کے بعد ایران کے ساتھ اپنی دوستی برقرار رکھنے کا طریقہ ہو سکتا ہے"۔

انہوں نے المشارق کو بتایا، "چین ایران کو تزویراتی شراکت دار اور کماؤ پُوت کی حیثیت سے نہیں کھونا چاہتا"۔

انہوں نے مزید کہا، "چین عرب ممالک اور ایران دونوں کو اپنی طرف رکھنا چاہتا ہے، اور جب ایران کی بات آتی ہے تو وہ سب سے زیادہ دھوکہ دہی کا استعمال کر رہا ہے"۔

سیاسی مبصرین نے کہا کہ ایران خطے میں اپنی توسیع پسند اور غیر مستحکم پالیسیوں کے ساتھ ساتھ اپنی غیر قانونی جوہری سرگرمیوں کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ دونوں اسے عالمی برادری سے الگ تھلگ کرنے کا سبب بنے ہیں۔

"چونکہ ایران اپنے راستے پر چلتے رہنے اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بارے میں ڈٹا ہوا ہے، لہٰذا یہ ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے بارے میں بھی اٹل ہے جن کے ساتھ اس کا معاہدہ ہوتا ہے"۔

انہوں نے کہا، "تہران اس قدر الگ تھلگ اور ٹوٹا ہوا ہے کہ یہ کسی دوست کی تلاش میں کسی بھی اصول کو اٹھا کر باہر پھینک دے گا، یہاں تک کہ اگر دوست بعض اوقات دشمن بھی ثابت ہوا ہو"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500