سیاست

چین کے نوآبادیاتی اقدامات پر ایران میں خطرے کی گھنٹی

از بابک دشتی

سنہ 2021 میں چینی فوجی مشقوں کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ [چینی وزارتِ دفاع]

سنہ 2021 میں چینی فوجی مشقوں کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ [چینی وزارتِ دفاع]

بیجنگ کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے 5,000 چینی فوجی ایران میں تعینات کیے جانے کی خبروں نے اسلامی جمہوریہ میں کان کھڑے کر دیئے ہیں، جس سے ایران اور چین کے 25 سالہ معاہدے کی رازداری کے بارے میں موجودہ خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔.

ایرانی حکومت کے کچھ اندرونِ ملک ناقدین نے اس معاہدے کو پچھلی صدی کے نوآبادیاتی معاہدوں سے تشبیہ دی ہے، جس میں ممکنہ فوجی تعیناتی چین کے ارادوں کی نوآبادیاتی نوعیت کو واضح کرتی ہے۔

تہران چیمبر آف کامرس کے رکن رضا پدیدار نے حال ہی میں پانچ سال کی خفیہ بات چیت کے بعد اپریل 2021 میں دستخط کیے گئے معاہدے کی روشنی میں بیجنگ کے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے ایران میں چینی دفاعی قوتوں کی فوری آمد کا حوالہ دیا۔

اس تعیناتی کی خبر، جو پہلی بار تین سال قبل پیٹرولیم اکانومسٹ نے شائع کی تھی، گزشتہ ایک ماہ سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اور اس نے ایران میں کھلبلی مچا دی ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ جنوری 2016 میں تہران میں ایرانی رہنماء علی خامنہ ای سے ملاقات کرتے ہوئے۔ [Khamenei.ir]

چینی صدر شی جن پنگ جنوری 2016 میں تہران میں ایرانی رہنماء علی خامنہ ای سے ملاقات کرتے ہوئے۔ [Khamenei.ir]

ایرانی وزارتِ تیل ایک بیان میں ان رپورٹوں کی یہ کہتے ہوئے تردید کرنے پر مجبور ہو گئی کہ یہ اطلاعات غلط ہیں اور ان کا مقصد "دوسرے ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کو خراب کرنا" ہے۔

ایرانی بحریہ کے ایک سابق تجزیہ کار جنہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی تھی، انہوں نے کہا کہ بیجنگ کے نقطۂ نظر سے، " چین کے لیے [25 سالہ] معاہدے کا نقطہ ایران میں قدم جمانا ہے، خصوصاً خلیج فارس میں جاسک اور کیش کے جزیروں پر"۔

بیجنگ پہلے ہی بحرِ ہند کے ساتھ ساتھ بندرگاہوں کا ایک سلسلہ تعمیر کر چکا ہے، جس سے بحیرۂ جنوبی چین سے نہر سویز تک ایندھن بھرنے اور دوبارہ رسد کے اسٹیشنوں کا سلسلہ بنایا گیا ہے، اور اس معاہدے کے ساتھ اب ایرانی بندرگاہوں جاسک اور چاہ بہار کی طرف توجہ منتقل کی جائے گی۔

غیر مصدقہ ہوتے ہوئے بھی، یہ رپورٹیں ایران اور چین کے معاہدے پر عمل درآمد کے طریقۂ کار کے بارے میں خدشات میں اضافہ کر رہی ہیں۔

جامع، ہمہ گیر معاہدے پر ایران کے اندر اور باہر وسیع طور پر تنقید کی گئی ہے، ایرانی حکومت کے کچھ مخالفین نے اسے " ایران کو چین کے ہاتھ بیچنا" قرار دیا ہے۔

کوئی تفصیلات فراہم کیے بغیر، ایران کے سرکاری حکام نے 14 جنوری کو اعلان کیا کہ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

مشرقی کیرولینا یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات اور ایرانی محقق جلیل روشن دل کے مطابق، "اسلامی جمہوریہ نے کئی سالوں سے سوچا تھا کہ چین سے قربت ایران کو اس بند گلی سے نکال سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا، یہ واضح ہے کہ معاہدے کی رازداری کے پیشِ نظر، ایران اور چین کے درمیان ایک خفیہ دستاویز پر دستخط کیے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ دستاویز واجب التعمیل ہے یا نہیں۔

'نوآبادیاتی معاہدہ'

ایرانی پیشوا علی خامنہ ای، جو دوسرے قائدین کے ساتھ شاذ و نادر ہی نجی ملاقاتیں کرتے ہیں، 23 جنوری 2016 کو تہران میں چینی صدر شی جن پنگ اور ان کے وفد کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں ایران-چین معاہدے کے عملی ڈھانچے کے حوالے سے ایک معاہدے پر پہنچے تھے۔

اس کے بعد سے، پورے چھ سالہ عمل کو خفیہ رکھا گیا ہے، اور اسلامی جمہوریہ کے حکام نے اس معاہدے کے مواد کو ظاہر کرنے سے انکار کر دیا ہے، جس سے عوامی تنقید اور استعماریت کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

ایران کے مقامی سیاسی مبصر صادق زیبا کلام نے کہا کہ یہ معاہدہ "برطانیہ کے ساتھ سنہ 1919 کے معاہدے کی یاد دلاتا ہے؛ ایک ایسا معاہدہ جس پر ایرانی حکومت نے دیوالیہ پن کے درمیان مایوسی کے عالم میں لندن کے ساتھ دستخط کیے تھے، جس نے مؤثر طریقے سے ایران کو برطانوی تحفظ میں ڈال دیا"۔

حزبِ اختلاف کے ایک قوم پرست گروہ، نیشنل فرنٹ آف ایران، جس کے ارکان زیادہ تر ایران سے باہر مقیم ہیں، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کے معاہدے کو مجلس (پارلیمنٹ) نے منظور نہیں کیا اور عوام اس پر ووٹ ڈالنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں ایران کے قدرتی وسائل، معیشت اور عسکری قوتوں پر غیر ملکی غلبہ ہو جائے گا، یہ اسلامی جمہوریہ کے اپنے آئین کی دفعہ 153 کی خلاف ورزی ہے، اور یہ قانونی طور پر درست نہیں ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "اس خفیہ معاہدے پر عمل درآمد کر کے، حکومت نے اپنے ہی آئین کی دفعات 77، 125، 59 اور 153 کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔"

دفعہ 146 کہتی ہے کہ ایران میں کسی بھی غیر ملکی فوجی اڈے کی اجازت نہیں ہے، حتیٰ کہ پُرامن مقاصد کے لیے بھی نہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ، جو "نہ مشرق اور نہ مغرب" کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی، اب ایران کو مشرق -- یعنی چین اور روس کے تحفظ اور نوآبادیاتی نظام میں تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔

تیل کی چوری چھپے درآمدات

ایرانی تیل پر عائد پابندیوں کو جُل دینے کے لیے، چین نے سنہ 2017 سے ایران سے تیل کی خریداری میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔

جنوری تک، تیل کے بہت سے تاجروں نے رائٹرز کو بتایا کہ ایرانی کھیپوں کی تجارت خام تیل کی معیاری قیمت سے 5 ڈالر فی بیرل کم پر ہو رہی ہے۔

تیل کی منڈی کے ایک تجزیہ کار جنہوں نے گمنام رہنے کی خواہش کا اظہار کیا، کے مطابق ایران کی تیل کی زیادہ تر برآمدات "پیچیدہ راستوں اور دلالوں کے ذریعے چین کی طرف جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہر ماہ ایک چھوٹی سی مقدار شام میں داخل ہوتی ہے"۔

اصول پسندوں کے ایک گروہ (جس کا خمینی سے قریبی تعلق ہے) کا کہنا ہے کہ ایران کی تیل کی فروخت میں حالیہ اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ ایران کو مغرب کے ساتھ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سیاسی تجزیہ کار احمد زیدآبادی نے کہا کہ "اصول پرستوں کو اس قسم کے دعوے اپنے آپ کو یا دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے کارآمد لگ سکتے ہیں، لیکن ایسے دعووں کا سچائی سے تعلق نہیں ہوتا"۔

روس اس کی سب سے بڑی مثال ہے کہ اس قسم کا مفروضہ کس طرح الٹا پڑ سکتا ہے۔

زیدآبادی نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے فرض کیا تھا کہ روس کے توانائی کے وسائل پر یورپ کا انحصار اسے اپنے ملک پر پابندیاں عائد کرنے سے روک دے گا، لیکن ان کا یہ مفروضہ بے بنیاد ثابت ہوا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500