سیاست

چین مشرقِ وسطی میں اپنا تسلط بڑھانے کی خواہش میں ایران سے تعلقات بڑھا رہا ہے

فارس العمران

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 27 اپریل کو ایک چینی فوجی وفد سے ملاقات کر رہے ہیں جس کی سربراہی وزیرِ دفاع وی فینگے کر رہے تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی فوجی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ [ایرانی ایوان صدر کی ویب سائٹ]

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 27 اپریل کو ایک چینی فوجی وفد سے ملاقات کر رہے ہیں جس کی سربراہی وزیرِ دفاع وی فینگے کر رہے تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی فوجی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ [ایرانی ایوان صدر کی ویب سائٹ]

مبصرین کا کہنا ہے کہ چین، ایران کے ساتھ تزویراتی شراکت داری کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے، مشرق وسطیٰ اور تیل سے مالا مال خلیج میں اپنے اقتصادی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے اسلامی جمہوریہ کو سہارے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

اس مقصد کے لیے، بیجنگ علاقے میں منصوبوں کا آغاز کر رہا ہے اور "تعمیر کے لیے تیل"پروگرام کے حصہ کے طور پر، مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے کے لیے شعبے میں وسیع سرمایہ کاری کے وعدے کر رہا ہے۔

اس حکمت عملی کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) جسے ون بیلٹ ون روڈ (او بی او آر) بھی کہا جاتا ہے، ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے جسا کا آغاز چین کے صدر شی جن پنگ نے 2013 میں کیا تھا اور اس کا مقصد مشرقی ایشیاء سے یورپ اور افریقہ تک، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کی تعمیر کرنا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی آر آئی کا سب سے بڑا مقصد عالمی معیشت کو چین پر منحصر بنانا ہے۔

چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر-عبداللہیان 31 مارچ کو بیجنگ میں ملاقات کے دوران کہنیوں کو ٹکراتے ہوئے۔ [چینی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ]

چینی وزیر خارجہ وانگ یی اور ان کے ایرانی ہم منصب حسین امیر-عبداللہیان 31 مارچ کو بیجنگ میں ملاقات کے دوران کہنیوں کو ٹکراتے ہوئے۔ [چینی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ]

انہوں نے مزید کہا کہ اندازے کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر کا یہ اقدام کسی بھی تجارتی یا اقتصادی مقصد کی حد سے آگے ہے اور یہ بین الاقوامی پالیسیوں اور فیصلوں کی تشکیل پر چین کا سیاسی وزن اور اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔

اپنی بالادستی کے حصول میں چین، اپنے ساتھی ایران کی طرف مضبوطی سے بڑھ رہا ہے تاکہ ایسے طویل المدتی تعلقات قائم کیے جا سکیں جو دونوں اطراف کے مفادات کو پورا کرتے ہوں۔

جنوری کے وسط میں، تہران نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ، ایک 25 سالہ جامع اسٹریٹجک تعاون کا معاہدہ (سی ایس سی اے) شروع کر رہا ہے جس پر پچھلے سال دستخط کیے گئے تھے۔

معاہدے کی شرائط کے تحت، ایران 400 بلین ڈالر کے سرمایہ کاری کے منصوبوں کے آغاز کے ذریعے، بی آر آئی میں شامل ہو گا۔

اس کے بدلے چین، ایرانی تیل کو عالمی منڈی میں اس کی قیمت سے 30 فیصد کی رعایت پر خریدے گا۔ یہ بات عراقی سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر غازی فیصل حسین نے المشارق کو بتائی۔

تہران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود، چین ایرانی تیل کے اہم درآمد کنندگان میں سے ایک رہا ہےاور برآمدات کو خفیہ طور پر بیجنگ بھیج دیا جاتا ہے۔ مبینہ طور پر اس سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ 840,000 بیرل فی دن کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔

مشترکہ مقاصد

حسین نے کہا کہ چین اور ایران دونوں کے اس اسٹریٹجک تعاون میں مشترکہ مقاصد ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "چین اس وقت خطے کے بے پناہ معدنی وسائل پر ہاتھ ڈالتے ہوئے، عالمی اقتصادی مرکز بننے کی خواہش رکھتا ہے"۔

دریں اثنا، انہوں نے مزید کہا کہ "ایران، مغربی پابندیوں کا سامنے کرتے ہوئے، چین اور روس جیسے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے"۔

حسین نے نظریہ پیش کیا کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے میں ایران کی دلچسپی، ایران کی اسلحہ سازی کی صنعتوں کو امداد فراہم کرنے میں بیجنگ کے کردار سے بھی منسلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام، جوہری منصوبے جن پر اربوں ڈالر لاگت آئی ہے اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے والی ایران کی پراکسی جنگیں شامل ہیں۔

تہران کو چین سے، فوجی مہارت اور جدید ہتھیار حاصل کرنے میں ترجیح حاصل ہے اور روس کے بعد وہ دوسرے نمبر پر ہے۔ وہ ایران کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔

گزشتہ سال سے، دونوں فریقوں کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے جن میں سے تازہ ترین 27 اپریل کو چینی وزیر دفاع وی فینگے کا تہران کا دورہ تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تعاون نے خلیجی ریاستوں کے درمیان شکوک و شبہات کو جنم دیا ہےکیونکہ چین ایران کی سلامتی کا ضامن اور خطے میں اس کے تخریبی کردار کا کفیل ہے۔

یہ چین کے اس دعوے کے باوجود ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بی آر آئی میں شامل ہونے کی ترغیب دے کر ان کے قریب جانا چاہتا ہے۔ اور اس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ آزاد تجارتی مذاکرات کو تیز کرے گا۔

چین اپنی ضروریات کا 40 فیصد تیل خلیج سے درآمد کرتا ہے جبکہ دونوں فریقوں کے درمیان 2020 میں تجارت 180 بلین ڈالر مالیت کی تھی۔

حسین نے کہا کہ چین عراق کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کرتا ہے جس کے پاس توانائی کے بڑے ذخائر ہیں۔

عراق میں چینی مفادات

حسین نے کہا کہ عراقی ملیشیا، جو سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) سے وابستہ ہیں، عراق میں چینی مفادات کے فروغ اور تحفظ کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں جو تہران کے "مشرق کی طرف مڑنے" کے تصور پر بنیاد رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسی ملیشیا جو ایران کے لیے اثر و رسوخ کا ایک اسٹریٹجک علاقہ قائم کرنا چاہتی ہیں وہ بھی، چینی سرمایہ کاری کے لیے اس کی حمایت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ اپنی دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکیں۔

بی آر آئی کے زیراہتمام، چین نے پچھلے سال سے عراق کو پاور پلانٹ اور ہوائی اڈے سمیت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر کے لیے 10.5 بلین ڈالر کی مالی امداد دی ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں نے کہا کہ اس کے باوجود، بغداد نہیں چاہتا کہ چین، عراقی سرمایہ کاری کی منڈی پر اجارہ داری قائم کرے۔

رائٹرز نے 17 مئی کو خبر دی کہ عراقی حکومت نے گزشتہ سال، تین ایسے معاہدوں کے اختتام پر اعتراض کیا تھا جن کے ذریعے چین، بین الاقوامی کمپنیوں سے تیل کی سرمایہ کاری میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتا تھا۔

عراقی حکام نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چینی کمپنیوں کو ملک کی آئل فیلڈز پر زیادہ کنٹرول دینے سے، تیل کی مغربی کمپنیوں کی روانگی تیز ہو سکتی ہے اور عراق غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کم پرکشش میدان بن سکتا ہے۔

ایک نامعلوم عراقی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ عراقی توانائی کے شعبے کا، چین کی قیادت میں کام کرنے والے توانائی کے شعبے کے طور پر تعارف کروایا جائے اور اس بات پر حکومت اور وزارتِ تیل کے درمیان اتفاق ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "امریکی اور یورپی سرمایہ کار کمپنیوں کی طاقت اور وقار کے مقابلے میں، چین کی سرمایہ کاری کی موجودگی عراق کے لیے اہم نہیں ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500