سلامتی

افغان شہری یہ جان کر حیران رہ گئے کہ القاعدہ کا رہنما کابل میں رہائش پذیر تھا

از سلیمان

کابل میں اس گھر کی بالکونی دکھائی گئی ہے جہاں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ [چارلس لِسٹر/ٹویٹر]

کابل میں اس گھر کی بالکونی دکھائی گئی ہے جہاں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ [چارلس لِسٹر/ٹویٹر]

کابل -- افغان شہریوں نے اس امریکی حملے کا خیرمقدم کیا جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو کابل میں ان کے ٹھکانے پر نشانہ بنایا گیا اور کہا ہے کہ ان کی موت سے افغانستان کی سلامتی میں اضافہ ہو گا اور ملک اور دنیا میں استحکام اور امن کی حمایت ہوتی ہے۔

پیر (1 اگست) کو ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی ایک بریفنگ میں، امریکی صدر جو بائیڈن نے تصدیق کی کہ الظواہری اتوار کی صبح مارے گئے، اور اس عزم کا اظہار کیا کہ افغانستان کو دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔

تجزیہ کاروں اور افغان شہریوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ القاعدہ کی موجودگی نے افغانستان کی قومی سلامتی اور ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

جرمنی میں مقیم افغان سیاسی تجزیہ کار محمد ویس ناصری نے سلام ٹائمز کو بتایا، "القاعدہ ایک بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورک ہے۔"

یہ تصویر جو دو اگست کو لی گئی تھی، میں کابل کا شیر پور علاقہ دکھایا گیا ہے، جہاں 31 جولائی کو القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

یہ تصویر جو دو اگست کو لی گئی تھی، میں کابل کا شیر پور علاقہ دکھایا گیا ہے، جہاں 31 جولائی کو القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری امریکی حملے میں مارے گئے تھے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

انہوں نے کہا کہ "یہ پوری دنیا کے لیے اور خاص طور پر افغانستان کے لیے، ایک سنگین خطرہ ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے اب تک، اس نے سب سے زیادہ خونریز دہشت گردانہ حملے کیے ہیں، جن میں بے شمار بے گناہ شہری مارے گئے ہیں۔"

ناصری نے کہا کہ "افغان کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردوں کا اڈہ بن جائے کیونکہ القاعدہ کے وجود نے ملک کے وقار کو ماند کر دیا ہے اور اس کی قومی سلامتی اور قومی مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔"

پیر کے روز امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ان لوگوں کی سرزنش کی جو "کابل میں القاعدہ کے رہنما کی میزبانی کر رہے تھے اور انہیں پناہ" دے رہے تھے۔

اس نے اِس اقدام کو دوحہ معاہدہ کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور "دنیا کو ایک بار پھر یقین دہانی کرائی کہ وہ دہشت گردوں کو افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے، دوسرے ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے"۔

افغان حیران ہیں

کابل کے رہائشی 23 سالہ محمد طیب، جو ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، نے کہا کہ "ہم تصور نہیں کر سکتے تھے کہ القاعدہ کا رہنما کابل کے قلب میں رہ رہا ہے، جو ارگ [صدارتی محل] سے صرف چند کلومیٹر دور ہے۔"

طیب نے کہا کہ "اس انکشاف سے ہر کوئی حیران اور مایوس ہوا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "القاعدہ کے رہنما کے کابل میں رہنے کی خبروں نے بدقسمتی سے ایک بار پھر افغانستان کو، دہشت گرد نیٹ ورکس کے اڈے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس نے افغانوں کے وقار اور ہمارے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔"

کابل میں مقیم سول سوسائٹی کے کارکن، 36 سالہ سید عبداللہ ہاشمی نے کہا کہ "القاعدہ کے رہنما کی افغانستان میں موجودگی، افغان عوام اور عالمی برادری کی خواہشات کے خلاف ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "میں ذرائع ابلاغ سے ایمن الظواہری کے قتل کے بارے میں جان کر حیران رہ گیا۔ یہ واقعی قابل اعتراض ہے کہ وہ کابل میں شیرپور کے علاقہ رہائش پذیر تھا جہاں بہت سے غیر ملکی سفارت خانے اور اہم عہدیداروں کے گھر واقع ہیں"۔

ہاشمی نے کہا کہ "افغان شہری القاعدہ کی موجودگی کو اپنے ملک کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور ہم یقینی طور پر اس کے خلاف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کی افغانستان میں پناہ گاہیں قائم ہوں"۔

انہوں نے کہا کہ ہم بین الاقوامی برادری بالخصوص امریکہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ افغانستان کو ایک بار پھر دہشت گردوں کا ایسا اڈہ نہ بننے دیں جو افغانستان اور دنیا بھر کے لوگوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہو۔

کابل کے 29 سالہ شکر اللہ صدیقی جو بہارستان کے پڑوس میں پھلوں اور کریانے کی دکان چلاتے ہیں، نے کہا کہ "افغان شہری کئی سالوں سے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کا شکار ہیں"۔

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردوں کا مرکز بنے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔"

بہت سے لوگوں نے خبر کا خیر مقدم کیا

کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں لیکچر دینے والے زاہد اللہ امرخیل نے کہا کہ "القاعدہ کی موجودگی کے افغانستان کے لیے منفی اور ناقابل برداشت نتائج ہیں۔ اس سے افغانوں کی ساکھ اور حیثیت کو نقصان پہنچتا ہے۔"

امرخیل نے کہا کہ "یہ ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کریں اور القاعدہ کو ایک بار پھر اپنے ملک میں دوبارہ منظم ہونے اور وسائل کو متحرک کرنے کی اجازت نہ دیں۔"

انہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ "القاعدہ کا وجود افغانستان کی قومی سلامتی، امن اور استحکام کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہے۔"

انہوں نے کہا کہ "ایک سپر پاور کے طور پر، امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی امن اور سلامتی کو یقینی بنائے اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے دہشت گرد گروپوں کو نشانہ بنائے

امرخیل نے کہا کہ "ہم اس حملے کا خیرمقدم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت ہوئی ہے"۔

کابل شہر سے تعلق رکھنے والی اسکول کی استاد، 27 سالہ رضیہ نیکزاد نے کہا کہ "اگر القاعدہ نے ملک میں کام جاری رکھا تو افغانستان کی ساکھ داؤ پر لگ جائے گی۔"

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو افغانستان سیاسی اور اقتصادی طور پر مزید تنہا ہو جائے گا اور افغان عوام کو تباہ کن نتائج بھگتنا ہوں گے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500