دہشتگردی

امریکہ نے القاعدہ کے سربراہ الزواہری کو کابل میں 'محفوظ گھر' میں ہلاک کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

27 جولائی 2006 کو الجزیرہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں القاعدہ رہنما ایمن الزواہری دکھایا گیا ہے، جب وہ اسامہ بن لادن کے تحت نائب کماندار تھا۔ الزواہری 31 جولائی کو کابل میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ [الجزیرہ/اے ایف پی]

27 جولائی 2006 کو الجزیرہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں القاعدہ رہنما ایمن الزواہری دکھایا گیا ہے، جب وہ اسامہ بن لادن کے تحت نائب کماندار تھا۔ الزواہری 31 جولائی کو کابل میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا۔ [الجزیرہ/اے ایف پی]

واشنگٹن – اتوار (31 جولائی) کو طلوعِ آفتاب کے قریب دنیا کے مطلوب ترین دہشتگردوں میں سے ایک اور 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں حملوں کا منصوبہ ساز القاعدہ سربراہ ایمن الزواہری مارا گیا۔

پیر کو ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے ایک خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے صحیح نشانے پر کیے جانے والے حملے کے لیے پیش قدمی کی اجازت دی جس میں کابل کے مصروف ترین علاقوں میں سے ایک، شہرپور میں الزواہری مارا گیا۔

بائیڈن نے کہا، ”انصاف کر دیا گیا اور یہ دہشتگرد رہنما ختم ہوا۔“

امریکی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا، ”کئی برسوں سے امریکی حکومت ایک نیٹ ورک سے متعلق آگاہ ہے جس کے بارے میں ہمارا اندازہ ہے کہ الزواہری کی معاونت کر رہا ہے۔“

31 جولائی کو کابل کے علاقہ شہرپور میں ایک امریکی ڈرون حملے کے بعد ایک گھر سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ [اے ایف پی]

31 جولائی کو کابل کے علاقہ شہرپور میں ایک امریکی ڈرون حملے کے بعد ایک گھر سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ [اے ایف پی]

2 اگست کو کابل کے علاقہ شہرپور میں ایک سڑک کے ساتھ لوگ پیدل چل رہے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے یکم اگست کو اعلان کیا کہ افغان صدرمقام میں ایک ڈرون حملے میں القاعدہ سربراہ ایمن الزواہری مارا گیا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

2 اگست کو کابل کے علاقہ شہرپور میں ایک سڑک کے ساتھ لوگ پیدل چل رہے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے یکم اگست کو اعلان کیا کہ افغان صدرمقام میں ایک ڈرون حملے میں القاعدہ سربراہ ایمن الزواہری مارا گیا ہے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

لیکن اسی برس امریکی انٹیلی جنس کو معلوم ہوا کہ اس کا خاندان، اس کی بیوی، اس کی بیٹی اور اس کے بچے افغانستان منتقل ہوئے۔

عہدیدار نے کہا کہ اس کا خاندان محتاط تھا، وہ اس امر سے بچنے کے لیے کہ کوئی ان کا پیچھا کرتے القاعدہ رہنما تک نہ پہنچ جائے، طویل عرصے رائج دہشتگردی کے داؤ پیچ استعمال کرتے تھے۔

بالآخر الزواہری سامنے آیا اور کبھی نہ گیا۔

عہدیدار نے کہا، ”ہمارے علم میں نہیں کہ اس نے کبھی محفوظ گھر چھوڑا ہو۔ ہم نے مختلف مواقع پر معقول مدت کے لیے بالکنی پر الزواہری کی شناخت کی۔“

امریکہ نے اس کثیر منزلہ رہائش گاہ کی مسلسل نگرانی کی تاکہ اس خاندان کے طریقِ زندگی کو سمجھا جا سکے۔

دفاعی اور انٹیلی جنس حکام نے اس گھر کی تعمیر کا مطالعہ کیا، جس کا مقصد عمارت کے ڈھانچے کے استحکام کو خطرے میں ڈالے بغیر الزواہری کو نشانہ بنایا جا سکے تاکہ شہریوں کو کم سے کم خطرہ ہو۔

مئی اور جون میں حملے کا منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ حکام نے جون میں منصوبہ کو حتمی شکل دی اور یکم جولائی کو رہائشگاہ کا تفصیلی ماڈل استعمال کرتے ہوئے بائیڈن کے سامنے پیش کیا۔

حکام نے کہا کہ بائیڈن نے اس منصوبے پر تفصیلی سوالات کیے، کہ آیا شہریوں کے لیے مسائل یا خدشات تو نہیں۔

بالآخر 25 جولائی کو بائیڈن نے فیصلہ کیا۔

حکام نے کہا کہ جیسے ہی الزواہری بالکنی پر آیا اسے دو ہیل فائر میزائلز سے ہدف بنایا گیا۔

عمارت کی ظاہری تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ ایک منزل پر چند کھڑکیاں ٹوٹی ہیں، اور دیگر سالم حالت میں ہے۔

انہوں نے کہا، ”حملے کے وقت الزواہری کے اہلِ خانہ محفوظ گھر کے دیگر حصوں میں تھے اور انہیں قصداً نشانہ نہیں بنایا گیا اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔“

کابل کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے شہر میں ایک سے زائد دھماکوں کی آواز سنی۔

کابل کے ایک رہائشی احمد میلاد نے طلوع نیوز تولو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ”صبح میں یونیورسٹی جانا چاہ رہا تھا، [لیکن] میں نے یکے بعد دیگرے دو دھماکے سنے۔“

'دنیا محفوظ تر ہے'

گزشتہ 31 اگست کو امریکی افواج کے ملک سے انخلاء کے بعد سے افغانستان میں القاعدہ پر پہلے امریکی فضائی حملے میں الزواہری مارا گیا۔

وائیٹ ہاؤس عہدیداران کا کہنا ہے کہ یہ حملہ القاعدہ کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے اور اس سے اس گروہ کی استعدادِ کار کم ہو جائے گی۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا، ”الزواہری کی ہلاکت کے بعد دنیا ایک محفوظ تر جگہ ہے، اور امریکہ ہمارے ملک، ہمارے لوگوں اور ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے لیے خطرہ بننے والوں کے خلاف عزم و استقلال سے کاروائی جاری رکھے گا۔“

وائیٹ ہاؤس عہدیدار نے کہا کہ مانا جاتا ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد کے برسوں میں القاعدہ تنزلی کا شکار ہو چکی ہے، اور الزواہری ایسے ”بچے کھچے کرداروں میں سے آخری تھا جو اس قسم کی اہمیت کا حامل تھا۔“

71 سالہ مصری سرجن الزواہری پرتشدد دہشتگردی کی جانب آنے سے قبل قاہرہ کے ایک پرتعیش گھر میں پلا بڑھا، اور 9/11 کے حملوں کے بعد 20 برس سے زائد عرصہ سے مفرور تھا۔

اس نے 2011 میں پاکستان میں امریکی خصوصی افواج کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی قیادت سنبھالی، اور اس کے سرپر امریکہ نے 25 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔

الزواہری میں وہ سحرانگیزی تو نہ تھی، جس نے دنیا بھر میں دہشتگردوں کو پھیلانے میں بن لادن کی مدد کی، تاہم اس نے القاعدہ کی خدمت میں اپنی تجزیاتی مہارتیں داخل کیں۔

مانا جاتا ہے کہ وہ مرکزی حکمتِ عملی و منصوبہ ساز تھا جو بشمول 9/11 حملوں کے تمام کاروائیوں کو چلاتا تھا – اور اس کے ساتھ ساتھ بن لادن کا ذاتی معالج بھی تھا۔

الزواہری نے 1980 کی دہائی کے وسط میں مصر چھوڑا اور پشاور، پاکستان چلا گیا، جہاں افغانستان کے روسی قبضہ کے خلاف مزاحمت کی بنیاد تھی۔

یہاں اس کی ملاقات بن لادن سے ہوئی اور 1988 میں وہ امریکہ کے خلاف حملوں کی اپیل کرنے کے بن لادن کے ”فتویٰ“ کے پانچ دستخط کنندگان میں شامل ہو گیا۔

القاعدہ کا مستقبل

سئوفان مرکز کے محقق کولن کلارک نے کہا کہ القاعدہ ”ایک چوراہے پر“ ہے۔

انہوں نے کہا، ”الزواہری کی قیادت کے باوجود، جس نے تعمیرِ نو کے دوران [القاعدہ کے] نقصانات کو کم از کم بنایا، اس گروہ کو آگے جاتے ہوئے شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ الزواہری کے جانے کے بعد القاعدہ کی قیادت کون کرے گا۔“

سئوفان مرکز نے 21 جولائی کو خبر دی کہ الزواہری کی ہلاکت کا باعث بننے والے امریکی حملے سے قبل اقوامِ متحدہ (یو این) کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں القاعدہ کی جانشینی کے حالیہ سلسلہ کی تفصیلات بتائی گئیں اور طویل عرصے سے اس کے رہنما کے ممکنہ بدل کی فہرست دی گئی۔

اس فہرست میں مصری نژاد سیف العدل جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ ایران میں نیم نظربندی میں ہیں، اور مراکش نژاد عبدالرّحمٰن المغربی شامل ہیں۔

دیگر ممکنہ جانشینوں میں الجزائر کے ابو عبیدہ یوسف العنبی، جنہیں یزید میبراک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور وہ اسلامی مغرب میں القاعدہ کے رہنما ہیں؛ اور الشباب کے رہنما صومالی شہری احمد دیری، جو صومالیہ میں قائم القاعدہ سے وابستہ ہیں، شامل ہیں۔ دری کے دو القاب ہیں: احمد عمر اور ابو عبیدہ۔

سئوفان مرکز نے کہا کہ ایران میں القاعدہ رہنماؤں کی زد پذیری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے – بطورِ خاص اگست 2020 میں القاعدہ کے دوسرے نمبر کے کماندار محمد المصری کے تہران میں قتل کے بعد – العدل ممکنہ طور پر امید وار نہ ہو گا۔

اس میں کہا گیا کہ المغربی – الزواہری کا داماد، اور القاعدہ کا ایک جانا مانا سپاہی – کی جانشینی کے امکانات زیادہ ہیں۔

بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خدشات

متعدد افغانوں نے صدمہ کا اظہار کیا کہ القاعدہ کا سربراہ کابل میں مارا گیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ یقین نہیں کر سکتے کہ الزواہری ان کے بیچوں بیچ چھپا ہوا تھا۔

کابل کی رہائشی فرشتہ جنہوں نے اپنی مزید شناخت ظاہر کرنے سے منع کیا، نے کہا کہ انہیں الزواری کے قتل کا سن کر حیرت ہوئی۔

انہوں نے کہا، ”یہ جان کر نہایت ناگوار گزر رہا ہے کہ وہ یہاں رہتا تھا۔“

ایک دکاندار جس نے اپنی شناخت بتائے جانے سے منع کیا، نے کہا کہ اسے حیرت نہیں ہوئی۔

اس نے کہا، ”کوئی بھی دہشتگرد گروہ ہماری سرزمین میں داخل ہو کر اسے استعمال کر کے باسانی یہاں سے جا سکتا ہے۔“

”ہم اپنا اپنی سرزمین اور اپنی املاک کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔“

15 جون کی ایک رپورٹمیں امریکی سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ اگست کے بعد نتازع سے متعلق سیکیورٹی سانحات میں کمی کے ایک ابتدائی عرصہ کے بعد، ”دولتِ اسلامیۂ“ کی خراسان شاخ (داعش کے) اور دیگر گروہوں نے اپنے حملے تیز تر کر دیے۔

یکم جنوری اور 21 مئی کے درمیان اقوامِ متحدہ نے 2021 کے اسی عرصہ کے دوران چھ صوبوں میں 129 حملوں کے مقابلہ میں 11 صوبوں میں داعش کے کی جانب سے 82 حملے ریکارڈ کیے۔

اقوامِ متحدہ نے فروری میں کہا کہ داعش، القاعدہ اور دیگر پرتشدد دہشتگرد گروہ ”یہاں [افغانستان] میں جس قدر اب آزاد ہیں اتنے حالیہ تاریخ میں کبھی نہ تھے۔“

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500