سلامتی

القاعدہ کے رہنما الظواہری کی ہلاکت کو پاکستان میں عسکریت پسندی کے لیے ایک دھچکا سمجھا جا رہا ہے

زرق حان اور اے ایف پی

کراچی میں، برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) کے ایک رہنما کے بارے میں معلومات انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کی ریڈ بک کے تازہ ترین ایڈیشن میں دیکھی گئی ہیں، جو پاکستان کے انتہائی مطلوب دہشت گرد مشتبہ افراد کی فہرست ہے۔ [زرق خان]

کراچی میں، برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) کے ایک رہنما کے بارے میں معلومات انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کی ریڈ بک کے تازہ ترین ایڈیشن میں دیکھی گئی ہیں، جو پاکستان کے انتہائی مطلوب دہشت گرد مشتبہ افراد کی فہرست ہے۔ [زرق خان]

اسلام آباد -- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں، امریکی حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت نہ صرف عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ یہ پورے خطے اور خاص طور پر پاکستان میں گروہ کے لیے تباہ کن ثابت ہو گی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ پیر (یکم اگست) کو کہا کہ ایک ڈرون حملے نے الظواہری کو کابل میں ایک "محفوظ گھر" میں ہلاک کر دیا۔

انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ 71 سالہ مصری شہری، شیر پور میں ایک تین منزلہ مکان کی بالکونی میں تھا، جو کہ کابل کے سب سے متمول محلوں میں سے ایک ہے، جب اتوار کو صبح سویرے، اسے دو ہیل فائر میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔

دفاعی اور انٹیلی جنس حکام نے گھر کی تعمیر کا مطالعہ کیا، جس کا مقصد عمارت کی ساختی سالمیت کو خطرے میں ڈالے بغیر الظواہری کو نشانہ بنانا تھا، تاکہ شہریوں کے لیے خطرے کو کم سے کم کیا جا سکے۔

الجزیرہ کی طرف سے 6 جنوری 2006 کو نشر کی گئی فوٹیج کے اسکرین شاٹ میں ایمن الظواہری کو کسی نامعلوم مقام پر تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [اے ایف پی]

الجزیرہ کی طرف سے 6 جنوری 2006 کو نشر کی گئی فوٹیج کے اسکرین شاٹ میں ایمن الظواہری کو کسی نامعلوم مقام پر تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [اے ایف پی]

عمارت کی نظر آنے والغ تصاویر میں ایک منزل پر صرف چند کھڑکیاں ہی اڑائی گئی ہیں اور باقی برقرار ہیں۔

اہلکار نے کہا کہ "حملے کے وقت الظواہری کے خاندان کے افراد محفوظ گھر کے دیگر حصوں میں موجود تھے اور انہیں جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا گیا اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔"

القاعدہ کا عالمی عالی دماغ

الظواہری کو ایسا عالی دماغ سمجھا جاتا تھا جس نے القاعدہ کی کارروائیوں کو آگے بڑھایا تھا -- بشمول 11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر کیے جانے والے حملے - - اس کے ساتھ ساتھ وہ اسامہ بن لادن کا ذاتی ڈاکٹر بھی تھا۔

پاکستان میں امریکی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں بن لادن کی ہلاکت کے بعد، اس نے 2011 میں، القاعدہ کی باگ ڈور سنبھالی اور اس گروپ کی مرکزیت کو ختم کرنے کی حوصلہ افزائی اور پوری دنیا میں القاعدہ کی فرنچائزز کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا۔

الظواہری نے 2014 میں، برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) کو جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لیے دہشت گرد گروپ کی علاقائی وابستگی کے طور پر شروع کیا اور عاصم عمر کو اس کا علاقائی سربراہ مقرر کیا۔

عمر، جسے 2018 میں امریکہ نے عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا،خود ستمبر 2019 میں، افغانستان کے صوبہ ہلمند کے ضلع موسیٰ قلعہ کے ایک احاطے پر مارے جانے والے ایک چھاپے کے دوران مارا گیا تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے، انسداد دہشت گردی پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ "اے کیو آئی ایس ایک بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کا تعلق مختلف پاکستانی عسکریت پسند گروپوں، جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان [ٹی ٹی پی] سے ہے۔"

اہلکار نے کہا کہ تاہم، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کریک ڈاؤن نے ملک میں اے کیو آئی ایس کی موجودگی کو بہت کم کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "چونکہ ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں نے القاعدہ سے متاثر اپنے نظریے کو برقرار رکھا ہے اس لیے، الظواہری کی موت کو پاکستان میں جہادی گروپوں کے لیے ایک بڑے دھچکے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔"

علاقائی عزائم

تجزیہ کاروں کے مطابق، الظواہری کی طرف سے اے کیو آئی ایس کے قیام کا فیصلہ "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش- کے) کے قیام کا ردعمل تھا۔

اسلام آباد میں مقیم سیکیورٹی کے تجزیہ کار، فرحان زاہد نے 2019 میں پاکستان فارورڈ کو بتایا تھا کہ "الظواہری خود ایک ویڈیو میں عاصم عمر کا تعارف کراتے ہوئے نظر آئے تھے... دونوں نے برصغیر پاک و ہند میں دہشت گردی کے حملہ کرنے کا عزم کیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ "عقلیت کافی سادہ تھی: القاعدہ، داعش کو پاکستان کے متنوع جہادی منظر نامے پر قدم جمانے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی، جس پر القاعدہ کا طویل عرصے سے غلبہ ہے۔"

ستمبر 2014 میں، اے کیو آئی ایس نے کراچی میں پاکستانی بحریہ کے ایک جنگی جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، جس میں 10 نیم فوجی اہلکار ہلاک اور 15 زخمی ہوئے۔ لڑائی میں دو حملہ آور مارے گئے اور تیسرے نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

پاکستان میں 2017 میں عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد، الظواہری نے چھوٹے سیلز اور تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھرتی پر مرکوز ایک نئی حکمت عملی وضع کرکے اے کیو آئی یس کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی تھی۔

انصار الشریعہ پاکستان (اے ایس پی)، ایک غیر معروف عسکریت پسند گروپ جو اے کیو آئی ایس کا حامی ہے، 2017 میں کراچی میں سامنے آیا، اور یہ اس نئی حکمت عملی کی ایک علامت تھی۔

اے ایس پی میں ایک درجن کے قریب ارکان شامل تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شام میں مقیم القاعدہ سے منسلک گروپ النصرہ فرنٹ کی چھتری تلے کام کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 15 جولائی کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، اے کیو آئی ایس کے پاس تقریباً 180 سے 400 جنگجو ہیں، جن میں سے اکثریت کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، میانمار اور پاکستان سے ہے۔

الظواہری کی موت کے بعد، القاعدہ کو اب ایک جانشینی کے بحران کا سامنا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کاؤنٹر ایکسٹریمزم پروجیکٹ کے ڈائریکٹر اور اقوام متحدہ کے سابق مشیر، ہنس جیکب شنڈلر نے اے ایف پی کو بتایا کہ "الظواہری وابستہ گروہوں کی روزمرہ کی فیصلہ سازی میں ملوث نہیں تھا۔"

انہوں نے کہا کہ "لیکن آپ کو ایک خاص ناموری اور تقدم رکھنے والی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ تمام ملحقہ اداروں کے سربراہان کو اس کے ساتھ ذاتی وفاداری کا حلف اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔"

"لہذا اس کی جگہ لینا ایک مشکل کام ہو گا۔"

پاکستان پر توجہ

الظواہری نے اپنی تحریروں میں، طویل عرصے سے اسلامی قانون کے نفاذ کو پاکستان میں اپنی بغاوت اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کے ایک سینئر فیلو مائیکل ڈبلیو ایس ریان کے مطابق الظواہری کے 130 صفحات پر مشتمل یک موضوعی رسالے بعنوان "دی مارننگ اینڈ دی لیمپ" جس نے پاکستان کے آئین کا تجزیہ کیا میں 2009 سے-2010 میں القاعدہ کی طرف سے پاکستانی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں"سب سے زیادہ غیر معمولی اضافے" کو نشان زد کیا ہے۔

ریان نے، 2010 میں جیمزٹاون فاؤنڈیشن جو واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک دفاعی پالیسی تھنک ٹینک ہے، کی ایک اشاعت ٹیررازم مانیٹر میں لکھا کہ یک موضوعی رسالہ، جس کا اردو میں ترجمہ کیا گیا تھا، نہ صرف "اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، بنیادی طور پر القاعدہ اور اس کے مقامی اتحادیوں کے اصولوں کے مطابق، اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے؛ بلکہ یہ خود ریاست کی تباہی کا مطالبہ بھی کرتا ہے"۔

کراچی میں مقیم مذہبی رہنما اور پیغام پاکستان (پی ای پی) یا پاکستان کا پیغام کے دستخط کنندہ، علامہ شاہد فاروقی نے کہا کہ "الظواہری کے لیے پاکستان سٹریٹجک لحاظ سے ایک اہم ملک تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے بیانات کے ذریعے پاکستانی ریاست کی قانونی حیثیت کو مسلسل نشانہ بناتا رہا۔"

ہزاروں پاکستانی اسلامی علماء نے 2018 میں، پی ای پی پر دستخط کیے، جو کہ پاکستان کے آئین پر الظواہری جیسے شدت پسند رہنماؤں کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، اتفاق رائے پر مبنی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی دستاویز ہے۔

فاروقی نے کہا کہ "الظواہری نے دہشت گردی کی حمایت کے لیے اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح کی جس سے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500