سلامتی

القاعدہ کے سینئر ارکان کی ننگرہار میں عوام میں واپسی پر تشویش نمایاں

از حمزہ

12 ستمبر کو ایک طالبان جنگجو سورج غروب ہوتے وقت پہرہ دیتے ہوئے۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

12 ستمبر کو ایک طالبان جنگجو سورج غروب ہوتے وقت پہرہ دیتے ہوئے۔ [کریم صاحب/اے ایف پی]

لانگ وار جرنل کے بلاگ میں 30 اگست کو بتایا گیا کہ اسامہ بن لادن کے سابق سیکیورٹی چیف امین الحق کو طالبان جنگجوؤں کے ہمراہ ننگرہار صوبے میں اپنے گھر لوٹتے ہوئے ویڈیو میں دیکھا گیا ہے۔

امین الحق، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انہیں سنہ 2008 میں پاکستان میں حراست میں لیا گیا تھا، کو مبینہ طور پر سنہ 2011 میں رہا کیا گیا تھا اور حالیہ ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے تک وہ غائب تھے۔

جریدے کے مطابق، ٹوئٹر پر شیئر کی گئی امین الحق کی ویڈیو، "اس بات کا ثبوت ہے کہ القاعدہ کے کمانڈر اب خود کو اتنا محفوظ محسوس کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے زیرِ تسلط افغانستان میں سرِ عام دکھائی دینے لگے ہیں"۔

دریں اثناء، القاعدہ کے ارکان اس مہینے کے شروع میں وادی پنجشیر پر اپنے حملے میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے جو کہ تحریک کے خلاف مزاحمت کا آخری گڑھ ہے۔

6 ستمبر کو طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے وادی کا کنٹرول چھین لیا ہے۔

سابق نائب صدر اول اور قومی مزاحمتی محاذ کے رہنماؤں میں سے ایک، امراللہ صالح، نے 3 ستمبر کو نشر ہونے والی ویڈیو میں تھا کہا، "موجودہ صورت حال تشویشناک ہے۔ ہم طالبان اور اس کے اتحادیوں: القاعدہ اور خطے میں دیگر دہشت گردوں کے حملے کی زد میں ہیں۔"

اس سال کے شروع میں، افغان افواج نے مئی میں صوبہ ہلمند میں طالبان کے ساتھ لڑنے والے القاعدہ کے 30 ارکان کو ہلاک کر دیا تھا، جبکہ اپریل میں پکتیکا میں طالبان کے ایک بڑے کمانڈر کے ساتھ القاعدہ کا ایک سینئر رہنماء بھی مارا گیا تھا۔

یہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان قریبی اور جاری عملی تعلقات کی طویل تاریخ کی صرف تازہ ترین مثالیں ہیں۔

القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلقات

ہرات کے مقامی، سیاسی تجزیہ کار احمد سعیدی نے کہا، "القاعدہ نیٹ ورک کے پاس وسیع مالی وسائل ہیں۔ طالبان ماضی میں القاعدہ کی مالی اور انتظامی معاونت سے مستفید ہو چکے ہیں، جیسا کہ وہ اب کر رہے ہیں۔"

سعیدی نے کہا، "طالبان کے بالعموم اور حقانی نیٹ ورک کے بالخصوص القاعدہ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان برسوں سے موجود گہرے تعلقات کے پیشِ نظر، طالبان القاعدہ کے ارکان کو اپنی صفوں سے نہیں نکال سکتے۔"

ان کا کہنا تھا، "اگرچہ طالبان القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات سے انکار کرتے ہیں، القاعدہ کے رہنماء ایمن الظواہری نے [طالبان رہنماء] ملا ہیبت اللہ [اخوندزادہ] کی بیعت کی ہے۔ دریں اثناء، القاعدہ کے سینکڑوں عسکریت پسند اس وقت طالبان کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔"

جرمنی کے مقامی، افغان تجزیہ کار ویس ناصری نے کہا کہ طالبان القاعدہ کی مدد سے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ناصری نے سلام ٹائمز کو بتایا، "طالبان اور القاعدہ کے نظریاتی اور تزویراتی تعلقات ہیں، جو کبھی منقطع نہیں ہوئے۔ طالبان نے القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی براہِ راست مدد سے افغانستان پر قبضہ کیا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اب جبکہ افغانستان کا سقوط ہو چکا ہے اور طالبان نے قبضہ حاصل کر لیا ہے، القاعدہ کی قیادت اور اس کے سیاسی، عسکری اور نظریاتی مراکز افغانستان واپس آ جائیں گے۔

ناصری نے کہا کہ القاعدہ کی افغانستان میں واپسی کے ثبوت کی ایک مثال ننگرہار میں اسامہ بن لادن کے سابق سیکیورٹی چیف امین الحق کی آمد ہے۔

انہوں نے کہا، "طالبان کی فتح کے ساتھ، افغانستان ایک بار پھر القاعدہ اور دہشت گردی کا مرکز بن گیا ہے، جو کہ خطے اور دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔"

القاعدہ کی واپسی میں سہولت کاری

کابل میں کاردان یونیورسٹی کے ایک لیکچرار، فہیم چاکاری نے کہا "القاعدہ کے عربی بولنے والے عسکریت پسندوں، جنہوں نے پنجشیر پر حملہ کیا تھا، کی موجودگی، نیز ننگرہار میں القاعدہ کے ایک اہم رکن کی موجودگی -- ویڈیو کلپ جنہیں میں نے اور تمام افغانوں نے دیکھا، نے ہم پر ثابت کیا ہے کہ طالبان اور القاعدہ مل کر کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "طالبان نے القاعدہ کی افغانستان واپسی میں سہولت کاری کی ہے۔"

کابل میں سیاسی تجزیہ کار برنا صالحی کے مطابق، القاعدہ اور طالبان دونوں اپنے مضبوط تعلقات کو خاموش رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

صالحی نے کہا، "اس وقت، طالبان کو بین الاقوامی سطح پر قبولیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے وہ القاعدہ کے ساتھ وابستہ نہیں ہونا چاہتے، جو کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یمن میں القاعدہ نے طالبان کو ان کی فتح پر مبارکباد دی، لیکن نہ طالبان اور نہ ہی القاعدہ اپنے تعلقات کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔

صالحی نے کہا کہ وہ محتاط انداز میں اور امریکہ کے مقابلے میں اپنی کمزوری کو کم سے کم کرنے کے لیے پیش رفت کر رہے ہیں۔

کابل-- تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے ایک سرکردہ رکن کی سرِ عام اپنے آبائی شہر میں واپسی اور طالبان کے ساتھ مل کر لڑنے والے القاعدہ کے جنگجوؤں کی موجودگی دونوں گروہوں کے درمیان مضبوط اور مسلسل تعلقات کا ثبوت ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500