معیشت

ایران پابندیوں سے بچنے کے لیے فریب کاریاں جاری رکھے ہوئے ہے

پاکستان فارورڈ

جبل الطارق کے ساحل پر 2019 میں، ایڈریان دریا آئل ٹینکر، جسے پہلے گریس ون کے نام سے جانا جاتا تھا، پر ایرانی پرچم لہرا رہا ہے۔ [جانی بگیجا /اے ایف پی]

جبل الطارق کے ساحل پر 2019 میں، ایڈریان دریا آئل ٹینکر، جسے پہلے گریس ون کے نام سے جانا جاتا تھا، پر ایرانی پرچم لہرا رہا ہے۔ [جانی بگیجا /اے ایف پی]

پابندیوں سے بچنے کے لیے فرنٹ کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے تیل کی غیر قانونی اسمگلنگ اور منتقلی، بحری قزاقی اور منی لانڈرنگ کی کارروائیوں کے ساتھ، ایرانی حکومت کے مشکوک کام بلا روک ٹوک جاری ہیں۔

ایران کے اقدامات 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے، ایرانی عزم کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں، جسے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کے تحت ایران پر امریکہ کی جانب سے کئی نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں اور تازہ ترین پابندی کا اعلان 6 جولائی کو کیا گیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ٹویٹر پر کہا کہ "ایران کی جانب سے جے سی پی او اے کی طرف واپسی کے عزم کی عدم موجودگی کے باوجود، ایک ایسا نتیجہ جس کے لیے ہم کوشش جاری رکھیں گے، ہم اپنے اختیارات کو ایران کی توانائی کی مصنوعات کی برآمدات کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔"

انہوں نے ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ "امریکہ ہمیشہ سے مخلص اور ثابت قدم رہا ہے تاکہ بامعنی سفارت کاری کے ذریعے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے مکمل نفاذ کی طرف باہمی واپسی حاصل کی جا سکے۔"

اس تصویر میں ایرانی ٹینکرز داران اور گولرو، 24 جون کو شام کی بنیاس بندرگاہ سے نکلتے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ارمان 114 ٹریڈن کے ساتھ جہاز سے جہاز کی منتقلی میں مصروف ہے۔ [یورپین یونین]

اس تصویر میں ایرانی ٹینکرز داران اور گولرو، 24 جون کو شام کی بنیاس بندرگاہ سے نکلتے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ارمان 114 ٹریڈن کے ساتھ جہاز سے جہاز کی منتقلی میں مصروف ہے۔ [یورپین یونین]

نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں ایرانی اساتذہ کو احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں میں، ایرانی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اپنے انتہائی خراب حالاتِ زندگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ [ایران انٹرنیشنل]

نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں ایرانی اساتذہ کو احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں میں، ایرانی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اپنے انتہائی خراب حالاتِ زندگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ [ایران انٹرنیشنل]

انہوں نے کہا کہ "یہ ایران ہی ہے جو آج تک اس راستے کے لیے، اسی طرح کی وابستگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔"

ایران کی جانب سے شامی حکومت کو تیل کی مسلسل ترسیل، جو خود بھی پابندیوں کے تحت ہے، تہران کی جانب سے اپنے وعدوں اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرنے کی ایک بڑی مثال ہے۔

ترسیل کے فریبی طریقے

ایرانی خبر رساں ایجنسی تسنیم نے 4 جولائی کو خبر دی کہ ایک ایرانی آئل ٹینکر شام کی بندرگاہ بنیاس پر پہنچا، جو حالیہ ہفتوں میں ایسا تیسرا واقعہ ہے۔

تسنیم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان قرض پر خریداری کرنے کے ایک نئے سلسلہ کے آغاز کے بعد، ایرانی ٹینکر 2 جولائی کو بحیرہ روم میں، شمال مغربی شامی بندرگاہ پر پہنچا۔

امریکہ میں قائم وکالتی گروہ، یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر ایران (یو اے این آئی) کی ایک خبر کے مطابق، 24 جون کو، پہلے دو ایرانی ٹینکروں - داران اور گولرو - نے بنیاس بندرگاہ پر اپنا سامان اتارا، جب کہ ایرانی ٹینکر ارمان 114 کیمرون کے جھنڈے والے جہاز ٹریڈن کے ساتھ، جہاز سے دوسرے جہاز میں سامان کی منتقلی میں مصروف تھا۔

اپنی کھیپ کی منزل کا پتہ لگانے سے بچنے کے لیے، ایران عام طور پر جہاز سے جہاز کی منتقلی کا طریقہ استعمال کرتا ہے، جس میں بحری جہاز اپنے ٹرانسپونڈر کو سمندر میں بند کر دیتے ہیں اور خفیہ طور پر اپنے تیل کی کھیپ کو منتقل کرتے ہیں۔

یو اے این آئی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ شام، چین کے بعد ایرانی تیل کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے مئی میں شام کو یومیہ 111,000 بیرل سے زیادہ تیل فراہم کیا جس کی مالیت 400 ملین ڈالر سے زیادہ تھی۔

تاہم، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ایران کو کھیپ کی ادائیگی آیا کی جاری ہے یا کیسے کی جائے گی۔

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی صنعا نے 4 جولائی کو خبر دی کہ صدر بشار الاسد نے دمشق اور تہران کے درمیان کریڈٹ لائن معاہدے کے "نئے مرحلے" کی توثیق کر دی ہے۔

اے ایف پی کی خبر کے مطابق، اس معاہدے کا مقصد شام کو توانائی اور اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے درکار دیگر سامان فراہم کرنا ہے۔

شام ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے سے خانہ جنگی کی زد میں ہے جس نے ہائیڈرو کاربن کے شعبے کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے۔

جولائی 2015 میں، شام کی پارلیمنٹ نے ایران کے ساتھ ایک معاہدے کی منظوری دی، جس کے تحت شام کو 1 بلین ڈالر کی کریڈٹ لائن ملی۔

یہ معاہدہ 2013 میں اسی طرح کی دو لائن آف کریڈٹس کے بعد ہوا، جن کی مجموعی مالیت 4.6 بلین ڈالر تھی، جس نے ایران کو شام کی تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کی اجازت دی۔

یو اے این آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "ایران نے، ایرانی تیل کی مصنوعات پر بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے کے لیے، جہاز رانی کی صنعت میں وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کے طریقوں کو اپنایا ہے۔"

اس میں کہا گیا ہے کہ "حکومت کی دھوکہ دہی پر مبنی جہاز رانی کی سرگرمیاں، بین الاقوامی سمندری صنعت کی حفاظت اور سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔"

قزاقی کے کام

اسی دوران جب کہ یہ جہاز رانی کے فریب کاری کے کاموں میں مصروف ہے، اسلامی جمہوریہ نے آبنائے ہرمز میں تیل کے جہازوں کو بحری قزاقی کی کارروائیوں کی دھمکیاں دینا جاری رکھا ہوا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والے توانائی کے موجودہ عالمی بحران کے ساتھ، آبنائے ہرمز -- ایک چوک پوائنٹ جہاں سے دنیا کی تیل کی پیداوار کا پانچواں حصہ گزرتا ہے -- اور بھی اہم ہو گیا ہے۔

امریکی پانچویں بحری بیڑے نے کہا کہ 20 جون کو، امریکی بحریہ کے ایک جہاز نے ایک ایرانی فوجی سپیڈ بوٹ کی طرف انتباہی شعلہ پھینکا جو آبنائے میں اس کے قریب پہنچی تھی۔

امریکی بحریہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی گارڈ کور (آئی آر جی سی) بحریہ کے تین جہازوں نے اس وقت غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں بات چیت کی جب امریکی بحریہ کے بحری جہاز آبنائے ہرمز سے گزر رہے تھے۔"

"بحری جہازوں میں سے ایک خطرناک حد تک تیز رفتاری کے ساتھ [یو ایس ایس] سروکو کے قریب پہنچا اور امریکی گشتی ساحلی جہاز کی جانب سے تصادم سے بچنے کے لیے قابل سماعت انتباہی سگنل جاری کیے جانے کے بعد ہی اس نے راستہ تبدیل کیا۔"

اس نے کہا کہ "ایرانی جہاز بھی بات چیت کے دوران امریکی بحریہ کے جہاز سے 50 گز (45 میٹر) کے فاصلے تک آ گیا اور سروکو نے اس کے جواب میں انتباہی شعلہ پھینکا"۔

امریکی بحریہ نے کہا کہ یہ واقعہ ایک گھنٹہ تک جاری رہا اور اس وقت ختم ہوا جب آئی آر جی سی بحریہ کا جہاز علاقے سے چلا گیا۔

واشنگٹن نے بارہا آئی آر جی سی پر آبنائے ہرمز میں سمندری ٹریفک میں خلل ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔

تازہ ترین واقعہ، 27 مئی کو آئی آر جی سی کی طرف سے، خلیج میں یونانی پرچم والے دو آئل ٹینکرز پر سوار ہونے اور انہیں قبضے میں لینے کے بعد سامنے آیا ہے۔

یونان نے، تہران کی جانب سے دونوں بحری جہازوں کو حراست میں لیے جانے کو ’بحری قزاقی کی کارروائیوں کے مترادف‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

20 جون کو ہونے والا سامنا ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔

جولائی 2019 میں، آئی آر جی سی نے آبنائے ہرمز میں برطانوی پرچم والے ٹینکر سٹینا امپیرو کو، اس کے عملے کے 23 ارکان کے ساتھ، قبضے میں لے لیا تھا۔

اسے دو ماہ تک ایرانی بندرگاہ بندر عباس میں رکھا گیا اور اسے بین الاقوامی دباؤ کے بعد ہی رہا کیا گیا۔

جنوری 2021 میں، ایرانی بحریہ نے جنوبی کوریا کے ٹینکر ہانکوک چیمی کو آبنائے ہرمز سے گزرتے ہوئے پکڑ لیا۔ ٹینکر کو اس وقت قبضے میں لیا گیا جب ایران، جنوبی کوریا کے بینکوں میں منجمد ایرانی رقوم کو آزاد کروانے کی کوشش کر رہا تھا، اسے چار ماہ بعد اسے رہا کر دیا گیا۔

ملکی اختلافات

ایران، دوسرے ملکوں کے علاوہ، چین اور مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک میں بینکاری خدمات کا استعمال کرکے، اپنی مالی صورتحال کو عارضی طور پر بہتر کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل نے 22 جون کی ایک رپورٹ میں، مغربی اور ایرانی سفارت کاروں اور حکام کے بیانات کے حوالے سے کہا کہ ایران "پراکسی کمپنیوں، غیر ملکی زرمبادلہ کے اداروں اور ثالثوں کے نیٹ ورک کے ذریعے" پابندیوں سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔

مالیاتی منڈیوں کے ماہر حسن زمانی نے کہا کہ حکومت کے زیر کنٹرول کام کرنے والے ایرانی اداروں نے، ایران سے باہر بینک اکاؤنٹس کھولے ہیں اور فرنٹ کمپنیاں قائم کی ہیں جو ایرانی تیل اور تیل کی مصنوعات کو کسی بھی ممکنہ کرنسی میں فروخت کرتی ہیں۔

زمانی نے کہا کہ "ایران اس وقت عالمی منی لانڈرنگ کی جنت ہے، کیونکہ یہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا رکن نہیں ہے"۔

پابندیوں کو جُل دیتے ہوئے اور لبنان، عراق، شام اور یمن میں اپنی پراکسی ملیشیاؤں کو مسلح کرنے کے لیے منافع کا استعمال کرتے ہوئے، حکومت ایرانی عوام کی اکثریت کو غریب کر رہی ہے۔

کھ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی غیر ملکی جنگیں اور پراکسی گروپوں کی حمایت، ایرانی شہریوں توجہ کو، اندرونِ ملک حالات کے خلاف احتجاج کرنے سے ہٹانے کے لیے، ایک سوچ سمجھ کر اپنائی جانے والی حکمت عملی ہے۔

یہ حکمت عملی واضح طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

ایران کے اندر، پچھلے کئی مہینوں کے دوران تقریباً روزانہ ہونے والے مظاہروں میں، ایرانیوں کو حکومتی بدعنوانی اور بہت ساری سماجی برائیوں کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا گیا ہے، جن میں اجرتوں کی عدم ادائیگی، مراعات کی کمی، کم تنخواہیں، کام کے ناپسندیدہ حالات اور بے روزگاری شامل ہیں۔

حکومت کے خلاف غصے کو، صدر ابراہیم رئیسی کی جانب سے اپنی انتظامیہ میں زیادہ تر اہم عہدوں پر، آئی آر جی سی کے سابق اور موجودہ عہدیداروں کی غیر متناسب تعداد میں تقرری سے، ہوا ملی ہے۔

آئی آر جی سی، ایرانی رہنما علی خامنہ ای کو براہ راست جواب دیتی ہے اور تقریباً پوری معیشت کو کنٹرول کرتی ہے۔

یہ ایرانی مخالفین کو ستاتی ہے، ملیشیا کے ایسے عناصر کو تربیت دیتی ہے جو خطے کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور انتخابات میں مداخلت کی کوشش کرتے ہیں۔ مبصرین اور شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ ان سرگرمیوں کو سرمایہ فراہم کرنے کے لیے ایرانی عوام کی جیبوں سے رقم لیتی ہے۔

جس چیز کو ملک کے بجٹ سے سرمایہ فراہم نہیں کیا جاتا انہیں غیر قانونی منشیات اور غیر قانونی ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے ذریعے مدد فراہم کی جاتی ہے، جس میں آئی آر جی سی کی بیرون ملک شاخ، قدس فورس، اور اس کی متعدد پراکسیاں ملوث ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500