سلامتی

تیل کی سپلائی چین کو خدشہ کا شکار بنانے کے لیے آبنائے ہرمز میں آئی آر جی سی کی جارحیت جاری

پاکستان فارورڈ

آئی آر جی سی بحریہ کی کشتیاں خلیج میں میزائل چلانے کی ایک مشق کر رہی ہیں۔ ]سید شہاب الدین واجدی[

آئی آر جی سی بحریہ کی کشتیاں خلیج میں میزائل چلانے کی ایک مشق کر رہی ہیں۔ ]سید شہاب الدین واجدی[

حکومتِ ایران دنیا کی مصروف ترین آبی گزرگاہوں میں سے ایک، آبنائے ہرمز میں مسلسل "خطرناک" اشتعال انگیزیوں اور "قذاقی کے اقدامات" سے تیل کی کشتیوں کو دھمکا رہی ہے۔

امریکی سنٹرل کمانڈ (سی ای این ٹی سی او ایم) نے ایک بیان میں کہا کہ دسمبر کے اوائل میں سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) بحریہ کی گشت کشتی کا آبنائے ہرمز میں امریکی بحری بیڑوں سے "ایک غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ انداز" میں سامنا ہوا۔

اس کشتی نے مہم جو سمندری بیس پلیٹ فارم بیڑے یو ایس ایس لیویس بی۔ پُلر اور گائیڈڈ میزائل شکن امریکی بحری بیڑے دی سلیوانس سے اس وقت رابطہ کیا جب وہ 5 دسمبر کو بین الاقوامی پانیوں میں عمومی سفر کر رہے تھے۔

بیان میں کہا گیا، "ایرانی کشتی نے تیز روشنی جلا کر پُل کو ناقابلِ دید بنانے کی کوشش کی اور امریکی بیڑے سے 150 گز ]137 میٹر[ کے فاصلے سے گزرا – خطرناک حد تک قریب، بطورِ خاص رات کے وقت"۔

30 اپریل 2019 کو آبنائے ہرمز میں ایرانی فوجی۔ ]عطا کنارے/اے ایف پی[

30 اپریل 2019 کو آبنائے ہرمز میں ایرانی فوجی۔ ]عطا کنارے/اے ایف پی[

28 مئی کو لی گئی ایک تصویر میں یمن کی بحیرۂ اسود کی بندرگاہ الحدیبیہ پر تختوں پر سامان لادا جا رہا ہے۔ ]اے ایف پی[

28 مئی کو لی گئی ایک تصویر میں یمن کی بحیرۂ اسود کی بندرگاہ الحدیبیہ پر تختوں پر سامان لادا جا رہا ہے۔ ]اے ایف پی[

جبکہ دونوں امریکی جہاز سنائی دینے والی تنبیہات اور غیر مہلک لیزرز کے ساتھ صورتِ حال کو معمول پر لائے، سی ای این ٹی سی او ایم نے تنبیہ کی کہ ایرانی بحریہ کی کاروائیوں نے "پیشہ ورانہ اور محفوظ بحری رویہ کے بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، حساب کی غلطی اور ٹکراؤ کا خدشہ بڑھا دیا۔"

سی ای این ٹی سی او ایم کے ترجمان کرنل جو بوکینو نے کہا، "بین الاقوامی پانیوں میں یہ خطرناک اقدام تمام تر مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی عدم استحکام کی سرگرمیوں کا غمـاز ہے۔"

امریکی عہدیداران نے کہا کہ چند روز قبل یکم دسمبر کو امریکی بحری بیڑے لیویس بی پلر نے تہران کے زیرِ استعمال ایک کلیدی بحری سمگلنگ روٹ پر ایک ماہی گیر دام کشتی سے 50 ٹن اسلحہ روکا، جو یمن جا رہا تھا۔

بحرین اساسی پانچویں امریکی بیڑے نے ایک بیان میں کہا کہ یہ سامان گولہ بارود کے راؤنڈ، فیوز اور راکٹوں کے پراپیلنٹس پر مشتمل تھا۔ پُلر کی یہ کاروائی "ایک ماہ کے اندر غیر قانونی اسلحہ کی ضبطگی کے دوسرے بڑے واقعے" کی نمائندگی کرتی ہے۔

پانچویں امریکی بیڑے کے کمانڈر وائس ایڈمرل براڈ کوپر نے کہا، "یہ نمایاں غیر قانونی عمل واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ایران کی جانب سے مہلک امداد کی غیر قانونی منتقلی اور عدم استحکام کا رویہ جاری ہے۔"

"امریکی بحری افواج خطے میں خطرناک اور غیرذمہ دارانہ بحری سرگرمی کو روکنے اور ختم کرنے پر مرکوز ہیں۔"

15 نومبر کو امریکی بحریہ نے کہا کہ اس نے حوثیوں کو فراہمی کے لیے ایران سے "دھماکہ خیز مواد" منتقل کرنے والی ایک کشتی کو تباہ کیا جو کہ ایک درجن بالسٹک راکٹس کو ایندھن فراہم کرنے کے لیے کافی توانائی رکھتا تھا۔

تیل کی اہم گزرگاہ

یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے پیدا ہونے والے توانائی کے عالمی بحران کے ساتھ، آبنائے ہرمز – ایک ناکہ جہاں سے دنیا کی تیل کی پیداوار کا پانچواں حصہ گزرتا ہے— مزید اہم ہو چکا ہے۔

یہ آبنائے ایران اور عمان کو الگ کرتے ہوئے خلیج عرب کو خلیج عمان اور بحیرۂ عرب کو ملاتی ہے۔

سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، کویت اور عراق سے برآمد ہونے والا زیادہ تر خام تیل اس بحری راستہ سے جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں ایران نے متعدد مرتبہ اس تضویری بحری راستے کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔

عُمانی سٹریٹیجی تجزیہ کار عبدالرّحمٰن القطھیری نے 2019 میں ایک ایسی دھمکی کے بعد المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایران اس دھمکی پر عمل کرتے ہوئے تنگ ترین مقام (تقریباً 3.2 کلومیٹر چوڑا) سے آبنائے کو بند کر دیتا ہے، تو "ممکنہ صورتِ حال مکمل طور پر تباہ کن ہو گی، اور خطہ ایک مسلسل جنگ میں دھنس سکتا ہے۔"

انہوں نے یہ حوالہ دیتے ہوئے کہ ایران "ان خطرات سے بخوبی آگاہ ہے"، کہا، "عالمی رسد میں آنے والی کمی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کم از کم 20 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔"

واشنگٹن نے اس آبنائے میں بحری ٹریفک کو درہم برہم کرنے پر بار ہا آئی آر جی سی کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

جون میں امریکی بحری جنگی جہاز نے مجبوراً آئی آر جی سی کی ایک سپیڈ بوٹ کو متنبہ کرنے کے لیے وارننگ فلیئر چھوڑا، جو کہ مبینہ طور پر آبنائے ہرمز میں سیدھی اس کی جانب آ رہی تھی۔

ایک گھنٹہ طویل کے آمنے سامنے میں یہ کشتاں ایک دوسرے سے 45 میٹر کے اندر آ گئیں، جو رواں ماہ کے واقعہ سے بھی قریب کی کال تھی۔

مئی میں آئی آر جی سی نے خلیج میں یونانی پرچم کے حامل دو تیل کے ٹینکرز پر سوار ہو کر انہیں ضبط کر لیا۔

یونان نے تحران کی جانب سے دو جہازوں کو حراست میں لینے کو "بحری قزّاقی کی کاروائی کے مترادف" قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔

اپریل میں جب امریکی کشتیاں آبنائے ہرمز کے ذریعے خلیج عرب سے باہر نکلیں تو تین ایرانی جہاز اور متعدد امریکی کوسٹ گارڈ اور بحریہ کی کشتیاں اور تین ایرانی جہاز کئی گھنٹوں تک تناؤ سے بھرپور آمنے سامنے رہے۔

جنوری 2021 میں ایرانی بحریہ نے جنوبی کوریائی ٹینکر ہینکُک چیمی کو ضبط کر لیا جب وہ آبنائے ہرمز سے سفر کر رہا تھا۔ یہ ٹینکر اس وقت پکڑا گیا جب ایران نے جنوبی کوریائی بینکوں میں منجمد مالیات کو غیر منجمد کیے جانے کا متلاشی تھا، اور بعد ازاں چار ماہ بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔

علاقائی تناؤ

ایران علاقائی تناؤ کا ایک مسلسل ذریعہ بھی ہے، کیوںکہ یہ تمام تر مشرقِ وسطیٰ میں عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے، بین الاقوامی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اب روس کے ساتھ اور یوکرین میں اس کی جنگ میں گروہ بندی کر رہا ہے۔

21 نومبر کو یمن کے ایران کی پشت پناہی کے حامل حوثیوں نے کم از کم ایک مسلح ڈرون کے ساتھ ایک حملہ کیا جس میں مبینہ طور پر المکلّہ کے صوبائی صدرمقام حضرموت کے مشرق میں الشہر کے قریب تیل ایک ٹرمینل، الدھابہ کے قریب ایک دام کشتی کو نشانہ بنایا۔

9 نومبر کو اس ملشیا نے تیل کے ایک ٹینکر پر حملہ کیا جب وہ حضرموت کے مشرق میں شوابہ کے جنوبی صوبہ میں قینہ کی بندرگاہ پر لنگرانداز تھا۔

21 اکتوبر کو حوثیوں نے دو ڈرونز کی مدد سے الدھابہ بندرگاہ پر حملہ کیا، یہ اس ملشیا اور آئینی حکومت کے مابین 2 اکتوبر کو عارضی جنگ بندی کے زائد المعیاد ہونے کے بعد سے اپنی طرز کا پہلا حملہ تھا۔

یمن میں امریکی سفیر سٹیون فاگن نے 21 نومبر کو حوثیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "مزاکرات کی میز پر لوٹ جائیں، تباہ کن جنگ کو ختم کریں اور ایک جامع سیاسی تصفیہ کے حصول میں تعمیری کردار ادا کریں۔"

انہوں نے ایران کی پشت پناہی کے حامل اس گروہ کو بین الاقوامی بحری تجارت کو دھمکانے سے باز رہنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی بندرگاہوں پر حوثوں کے حملے تیل کی کمی کی وجہ سے صرف یمنی افراد کے لیے ہی نقصان دہ ہوں گے۔

یہاں تک کہ جیسا کہ نیٹو یوکرین پر روس کے بلا اشتعال حملے کی مخالفت کر رہا ہے، اس کی رکن ریاستیں – بشمول امریکہ – بحیرۂ عرب جیسے تضویری اہمیت کے علاقوں میں اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

بحیرۂ اسود اور بحرِ ہند کے درمیان، بحیرۂ عرب ایک ایسا بحری راستہ ہے جس سے تمام ایرانی جہازوں کو عالمی بندرگاہوں تک پہنچنے کے لیے گزرنا پڑتا ہے، اور یہ بیجنگ کی "موتیوں کی لڑی" – عسکری اور تجارتی تنصیبات کے ایک نیٹ ورک کے ذریعہ مرکزی چین کو افریقہ کے سینگھ سے جوڑنے کی ایک حکمتِ عملی – کی ایک کلیدی کڑی ہے۔

درایں اثناء، روس یوکرین کے صدرمقام کیو اور دیگر کلیدی شہروں کو ہدف بنانے کے لیے ایرانی ساختہ ڈرونز استعمال کر رہا ہے۔

یہ حملے ایرانی ڈرونز فراہم کنندگان پر نئی پابندیوں اور ان تنبیہات کے بعد سامنے آئے کہ ایران اور روس "ایک مکمل دفاعی شراکت داری" میں داخل ہو رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500