مشاہدین کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں بحیرۂ عرب میں اسرائیل سے منسلک ایک آئل ٹینکر پر ایک ڈرون حملہ خطے میں جہاز رانی کے خلاف ایران کے دھمکی آمیز افعال میں ایک تیزی کی علامت ہیں۔
لائیبیریئن پرچم کی حامل کیمپو سکوائر کے چلانے والے ایلسٹن نے 17 فروری کو ایک بیان میں کہا کہ اس کشتی کو 10 فروری کو بھارت اور اومان کے ساحلوں سے 300 ناٹیکل میل کے فاصلے پر بھاری سامان لے جاتے ہوئے کسی فضائی شئے نے مار کیا۔
کمپنی نے کہا کہ ایک اسرائیلی کھرب پتی سے منسلک اس ٹینکر کو معمولی نقصان پہنچا، تاہم کوئی اموات واقع نہ ہوئیں۔
ایک امریکی عسکری ذریعہ نے کہا کہ اس حملہ میں ممکنہ طور پر ایک شہید-136 ڈرون ملوث تھا، جو کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے میں استعمال کی جانے والی ایرانی ان مینڈ ایئرل وہیکلز (یو اے ویز) میں سے ایک ہے۔
گزشتہ ماہِ نومبر میں اسی طرح کے ایک ڈرون حملے میں اومان کے ساحل سے کچھ فاصلے پر ایک اسرائیلی ملکیتی فرم کے زیرِ استعمال گیس تیل لے جانے والے ایک ٹینکر کو مار کیا گیا۔
امریکی سنٹرل کمانڈ (سی ای این ٹی سی او ایم) کے کمانڈر جنرل میکائیل "ایریک" کُرِلّا نے کہا کہ اس حساس آبنائے میں ایک "سولیئن کشتی پر حملہ ایک مرتبہ پھر خطے میں ایران کی بدنام سرگرمی کی عدم استحکام پر مبنی ساخت کو ظاہر کرتا ہے۔"
واضح شواہد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اومان کے ساحل کے قریب مرسر سٹریٹ ٹینکر پر 2021 کے ڈرون حملے کے پیچھے بھی ایران کا ہاتھ تھا ۔
ایسے حملے جوعموماً سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامیٔ ایران (آئی آر جی سی) کی جانب سے کیے جاتے ہیں، خلیجی پانیوں میں بڑے پیمانے پر خلل انداز ہوتے ہیں، جو کہ توانائی کی عالمی رسد کی ایک بڑی گزرگاہ ہیں۔
دبئی پولیس کے شعبۂ انسدادِ منشیات کے سابق آفیسر راشد محم٘د المرئی نے کہا کہ خلیجی پانیوں جیسی پانیوں کی تضویری اہمیت کی گزرگاہوں پر حملوں کے وسیع پیمانے پر نتائج ہوتے ہیں۔
انہوں نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پانی نہ صرف خلیج اور عرب خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے تضویری اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ یہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک کلیدی گزرگاہ بن چکے ہیں۔
امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کے کمانڈر وائس ایڈمرل بریڈ کوپر نے 21 فروری کو کہا کہ مشرقِ وسطیٰ اور خطے میں دیگر آبی گزرگاہوں پر ایرانی حملوں کی جانب "سب متوجہ ہیں"، کیوںکہ تہران کے جوہری منصوبے پر تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
حالیہ مہینوں میں عدم استحکام پر مبنی تہران کی کاروائیوں سے متعلق خدشات بڑھ چکے ہیں کیوںکہ تہران اسلحہ گریڈ کی سطحوں کے قریب یورینیئم افزودگی جاری رکھے ہوئے ہیں اور مبینہ طور پر متعدد جوہری بموں کے لیے میزائل کا مواد موجود ہے۔
19 فروری کو بلومبرگ نیوز نے خبر دی کہ جوہری توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (آئی اے ای اے) انسپکٹرز نے ایران کی افزودگی تنصیبات میں یورینیئم کے 84 فیصد تک افزودہ ذر٘ات کا پتہ چلایا ہے، جو کہ جوہری بم بنانے کی 90 فیصد حدِ تاثر کے قریب ہے۔
کوپر نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بحرین اساسی پانچویں بیڑے کی اپنی دو سالہ قیادت کے دوران خطے میں، ان کے مطابق، ایران کی "بدنام سرگرمیوں" میں اضافہ دیکھا ہے۔
کوپر نے ابوظہبی کی بین الاقوامی دفاعی نمائش اور کانفرنس کے حواشی میں کہا، "ہم اپنی شراکتیں پھیلانے پر مرتکز ہیں۔ مختصر جواب یہ ہے کہ ایران کے افعال کی جانب سب کی توجہ ہے۔"
ڈرونز مسئلہ نہیں کیوںکہ آئی آر جی سی بحری گشت معمول میں آبنائے ہرمز میں تیل کی کشتیوں کو دھمکاتی ہے اور خطے میں غیر ملکی عسکری کشتیوں کے ساتھ بے ترتیبی سے اور غیر پیشہ ورانہ طور پر پیش آتے ہیں۔
ڈرون اور ضمنی جنگیں
پانچواں بیڑہ آبنائے ہرمز میں گشت کرتا ہے، جس سے دنیا میں تیل کی پیداوار کا پانچویں حصے کی ترسیل ہوتی ہے۔ اس کا خطہ بحیرۂ احمر سے نہر سوئیز اور یمن کے قریب آبنائے باب المندیب تک جاتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، کوپر کی کمان میں پانچویں بیڑے نے ان آبی گزرگاہوں میں گشت کے لیے ڈرونز اور مصنوعی انٹیلی جنس کے استعمال میں بڑے پیمانے پر توسیع کی۔
ایران میں تیار اور یہاں سے ارسال ہونے والے ڈرونز خطے کے ان ممالک میں بھرے پڑے ہیں جو ایران کی پشت پناہی کی حامل ملشیا کی میزبانی کرتے ہیں۔
حالیہ رپورٹس کے مطابق، لبنانی حزب اللہ ماہرین پالمیئرا کے قریب شامی بادیہ (مشرقی صحرا) میں ڈرون چلانے کے لیے افغان فاطمیون ڈویژن کے ارکان کی تربیت کر رہے ہیں۔
یمن میں ایران کی پشت پناہی کے حامل حوثی ملشیا نے متعدد مواقع پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تنصیبات پر حملے کرنے کے لیے ایرانی ڈرونز کا استعمال کیا ہے۔
عراق میں ایران کی پشت پناہی کی حامل ملشیا نے کئی برسوں تک غیر ملکی عسکری چھاؤنیوں اور گلف عرب میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ایرانی ڈرونز کا استعمال کیا ہے۔
سعودی عسکری تجزیہ کار منصور الشہری نے کہا، "ایرانی ڈرونز ایک بڑا خطرہ ہیں جس کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
انہوں نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایران کے منصوبے غیر متوقع ہیں۔۔۔ اور اس کی سیاست بدمعاشی پر مبنی ہے اور صرف تہران اور آئی آر جی سی کی پالیسیوں کا ہی مقصد پورا کرتی ہے۔"
انہوں نے کہا، "اس کی ایک واضح مثال [ایران کی جانب سے] خلیجی ریاستوں پر حملہ کرنے یا بحیرۂ عرب کے خطے میں کشتیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ان ڈرونز کا بے قاعدہ استعمال ہے۔"
ولید ابوالخیر نے قاہرہ سے اس رپورٹ میں کردار ادا کیا