جرم و انصاف

جبر: ایران میں بڑھتے ہوئے مظاہروں سے مقابلہ کے لیے حکومت کی بنیادی حکمت عملی

پاکستان فارورڈ

ایران میں ایک نامعلوم تاریخ کی تقریب کے دوران، احتجاج کرنے والے ایک ایرانی کی، 3 مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصویر۔ [فائل]

ایران میں ایک نامعلوم تاریخ کی تقریب کے دوران، احتجاج کرنے والے ایک ایرانی کی، 3 مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصویر۔ [فائل]

حالیہ مہینوں میں سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل پر کیے جانے والے احتجاج نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا اور ملک کی سیکورٹی فورس کا اس پر ردعمل -- عام طور پر فساد مخالف پولیس فورسز اور سادہ لباس اور وردی میں ملبوس پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے کارکنان کے مرکب کی طرف سے سادہ رہا ہے -- انہیں دبا دیا جائے۔

ملک بھر میں اساتذہ، فیکٹریوں کے کارکن اور مزدوروں کے سرگرم کارکن، ایرانی حکومت کے ساتھ اپنی شکایات کو آواز دینے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جن کے ساتھ ساتھ کسان پانی کی قلت پر اور دیہاتوں کے مکین صفائی کے نظام کی ناکامی پر احتجاج کر رہے ہیں۔

بہت سے واقعات میں، مظاہرین کو، دھمکیوں کے ذریعے ان کے احتجاج کرنے کے حق سے محروم کیا گیا جبکہ دوسرے واقعات میں انہیں سیکورٹی فورسز کی طرف سے صریح دشمنی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہیں پیلٹ گنز سے گولیاں مار دی گئیں، گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا جبکہ کچھ لوگوں کو اپنے گھروں اور کمپیوٹروں کی ذلت آمیز تلاشی کا سامنا کرنا پڑا۔

یکم مئی کو ہمدان، ایران میں اساتذہ کم تنخواہ اور کام کرنے کے ناموافق حالات کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہیں۔ [ایران انٹرنیشنل]

یکم مئی کو ہمدان، ایران میں اساتذہ کم تنخواہ اور کام کرنے کے ناموافق حالات کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہیں۔ [ایران انٹرنیشنل]

گزشتہ 30 سالوں میں، سراوان، گیلان، شمالی ایران میں واقعہ اس لینڈ فل کی جگہ پر ٹنوں کچرا پھینکا گیا ہے۔ اپریل میں، لینڈ فل کا کچھ  بیرونی حصہ یہاں نظر آتا ہے۔ [سرپوش]

گزشتہ 30 سالوں میں، سراوان، گیلان، شمالی ایران میں واقعہ اس لینڈ فل کی جگہ پر ٹنوں کچرا پھینکا گیا ہے۔ اپریل میں، لینڈ فل کا کچھ  بیرونی حصہ یہاں نظر آتا ہے۔ [سرپوش]

حال ہی میں، یومِ کارکنان (یکم مئی) اور ایران میں یومِ اساتذہ (2 مئی) کو جب کارکنوں اور اساتذہ کی یونینوں نے مل کر ملک کے 28 شہروں میں مربوط احتجاج کیا تو آئی آر جی سی انٹیلیجنس اور پولیس فورسز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ احتجاج کیے جانے والے تمام شہریوں میں کی بھرپور موجودگی ہو۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ تہران میں مجلس (پارلیمنٹ) کی عمارت کے سامنے احتجاج ہونا تھا لیکن پولیس کی بھاری نفری نے شرکاء کو علاقے سے منتشر کردیا جس وجہ سے اس مطاہرے کو شہر کے مضافات میں منتقل کر دیا گیا۔

اساتذہ ملک بھر میں کئی مہینوں سے، معاہدے کے تحت کام کرنے والے اساتذہ (غیر سرکاری ملازمین) کی غیر ادا شدہ تنخواہوں اور عملے کے ارکان کے لیے بہتر سہولیات اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔

معاہدے کے تحت کام کرنے والے تعلیمی کارکن مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں سرکاری ملازم بنایا جائے جبکہ ریٹائرڈ اساتذہ اپنی پنشن میں اضافہ چاہتے ہیں تاکہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں کیونکہ ان میں سے کچھ کو جو تنخواہیں دی جا رہی ہیں وہ غربت کی سطح سے بھی نیچے ہیں۔

ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کے مطابق یوم مئی کے احتجاج کے دوران سنے جانے والے نعروں میں شامل تھے: "[صدر]رئیسی تم جھوٹے ہو۔ آپ کے وعدوں کا کیا ہوا؟" اور "وہ کہتے ہیں امریکہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ایک جھوٹ ہے! ہمارا دشمن یہیں ہے!"

بڑھتی ہوئی غربت اور عدم اطمینان

کم اجرت اور بے روزگاری نے ایرانی عوام پر موجود بوجھ کو بڑھا دیا ہے جو شدید جمود اور معاشی زوال کا سامنا کر رہے ہیں۔

ایک ریٹائرڈ ایلیمنٹری اسکول ٹیچر اکرم وکیلی جوکرمانشاہ میں رہائش پذیر ہیں نے کہا کہ وہ شرمندہ ہیں کیونکہ وہ اپنے دونوں بچوں اور ان کے اہلِ خانہ کو اکٹھا کھانے پر نہیں بلا سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ"مجھے اس میں وقفہ ڈالنا پڑتا ہے۔ میرے شوہر بھی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں اور ہم بمشکل ہی گزارا کر رہے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ"ہم باقاعدگی سے تفریح کرتے تھے اور میرے بچے اور ان کے زوج ہفتے میں کئی بار کھانے کے لیے آتے تھے۔ اب، مجھے انہیں الگ الگ مدعو کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور میں انہیں ہر ہفتے مدعو کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی"۔

جب سے کیان ٹائر، مشرق وسطیٰ کی سب سے پرانی ٹائر فیکٹری کو پچھلے مہینے بند کر دیا گیا، جس سے تقریبا 1,200 افراد بے روزگار ہو گئے تھے سابق ملازمین، تہران میں اہم سرکاری عمارتوں کے باہر باقاعدگی سے احتجاج کر رہے ہیں۔

فیکٹری کے سابق ملازمین نے صدارتی محل اور مختلف وزارتوں کے باہر ایسے کتبے اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا "مزدور ذلیل ہونے کے بجائے مرجائیں گے" اور "کام، اجرت، احتجاج ہمارا یقینی حق ہیں"۔

گزشتہ دہائی کے دوران، کیان ٹائر کے کارکنوں نے معاوضہ ادا نہ کیے جانے والے کام کی اجرت مانگنے اور مراعات کی کمی اور کم اجرت کے بارے میں احتجاج کرنے کے لیے اکثر مظاہرے کیے ہیں۔

کیان ٹائر کے بے روزگار مزدوروں کے علاوہ، مختلف شعبوں اور شہروں سے تعلق رکھنے والے مزدوروں نے کم اجرت اور ناکافی مراعات پر مسلسل احتجاج کیا ہے۔

عدم اطمینان کے ایک بے مثال عوامی مظاہرے میں، وزارت محنت کے ملازمین کا ایک بڑا گروہ، جن میں زیادہ تر خواتین تھیں 19 اپریل کو وزارت کی عمارت کے باہر جمع ہوا اور انہوں نے منصفانہ تنخواہ اور مراعات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے وزیر محنت حجت عبدالمالکی، کے حوالے سے نعرے لگائے "نااہل وزیر، شرم کرو، شرم کرو!" جنہوں نے فروری میں ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ وہ وزارت سے تقریباً 1,000 ملازمین کا صفایا کر دیں گے۔

دریں اثناء اعلیٰ ایرانی حکام تیل کی برآمدات پر حاصل ہونے والی ریکارڈ آمدنی کا دعویٰ کرتے ہیں، قانون ساز، مبصرین اور عام شہری حیران ہیں کہ سب پیسہ کہاں جا رہا ہے.

بہت سے ایرانی تیل کی آمدنی میں غبن اور عمومی بدعنوانی اور آئی آر جی سی کے سابقہ اور موجودہ افسران، جو رئیسی کی انتظامیہ میں غیر متناسب نمائندگی اور مراعات یافتہ عہدوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کے درمیان براہ راست تعلق دیکھتے ہیں۔

گرفتاریاں، طلبیاں، قید

مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق منگل کے روز، متعدد شہروں میں ہونے والے احتجاج کے دوران، درجنوں اساتذہ کو گرفتار کر لیا گیا جس سے حالیہ مہینوں میں گرفتار کیے جانے والے اساتذہ، مزدوروں اور سرگرم کارکنوں کی بڑھتی ہوئی فہرست میں مزید اضافہ ہوا۔

اساتذہ یونین کے کئی اعلیٰ عہدے دار اور یونین کے چار سرکردہ کارکن بھی اس دن گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے۔ اور کم از کم احتجاج کرنے والے کم از کم 70 اساتذہ کو تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل لے جایا گیا۔

یونین کے کچھ معروف کارکنوں کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے یا پوچھ گچھ کے لیے انٹیلی جنس کے محکمہ میں بلایا گیا۔

چند دیگر کو ان کے گھروں سے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کے گھروں کی تلاشی لی گئی اور ان کے کمپیوٹر اور دیگر سمارٹ آلات ضبط کر لیے گئے۔

پچھلے ایک سال میں، سرگرم مزدور کارکنوں اور ورکرز یونین کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار اور قید کیا گیا ہے اور ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے تقریبا ہر احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے۔

بہت سے اساتذہ اور کارکنوں کو بغیر کسی مقدمہ اور سزا کے قید کیا گیا ہے۔ حراست میں لیے گئے کچھ مظاہرین کے اہل خانہ نے بتایاکہ ان کی گرفتاری کے بعد انہیں کئی دنوں تک ان کے ٹھکانے کا کوئی علم نہیں تھا۔

غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے 4 مئی کو، قید شدہ تین اساتذہ کے قریبی ذرائع کے حوالہ سے بتایا کہ وہ تین دن پہلے اپنی گرفتاری سے اب تک بھوک ہڑتال پر ہیں۔ جیل میں موجود ایک یونین کارکن نے بھی یکجہتی کے طور پر ہڑتال میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

ماہرینِ ماحولیات کے خلاف کریک ڈاؤن

دریں اثناء ایران کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی پینے کے پانی اور زرعی استعمال کے لیے پانی کی قلت نے گزشتہ دو سالوں میں، جنوبی ایران میں درجنوں مظاہروں کو جنم دیا ہے۔

کئی ماحولیاتی کارکنوں پر اس وقت "جاسوسی" کا الزام لگا کر انہیں قید کر دیا گیا جب انہوں نے بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں سے اپنے ملک کے متعلقہ مسائل کے حل کے لیے راہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

حکومت کی آبی وسائل کی بدانتظامی نے پانی کی کمی کے مسائل کو بڑھا دیا ہے اور اس کی صفائی کی خدمات کی ناکامیوں نے ایک اور ماحولیاتی بحران پیدا کر دیا ہے۔

شمالی ایران کے گیلان صوبے میں واقعہ قصبے سراوان سے تعلق رکھنے والے درجنوں دیہاتی 28 اپریل کو، جب پہاڑ پر کچرا پھینکنے پر احتجاج کرنے کے لیے مسلسل تیسرے دن جمع ہوئے تو ان پر پیلٹ گن سے گولی چلائی گئی۔

پچھلے 30 سال سے حکومت ساراوان میں ٹنوں کے حساب سے کچرا پھینک رہی ہے جس سے مبینہ طور پر کوڑے کا پہاڑ بن گیا ہے جس کی اس وقت اونچائی 94 میٹر ہے۔

سراوان کے لوگوں نے کچرے کے داخلے کے دروازے کو بند کر کے کچرے کے اس ڈھیر کے خلاف احتجاج کیا اور انہوں نے ماحول پر اس کے نقصان دہ اثرات اور انہیں جس شدید بدبو میں رہنا پڑ رہا ہے، کی شکایت کی۔

شہریوں پر پیلٹ گنوں سے گولی چلانے کے علاوہ حکومتی فورسز نے کئی گرفتاریاں کیں، جس سے عوام میں غم و غصہ پھیل گیا۔

حکومت نے بعد میں اعلان کیا کہ وہ اس مسئلہ کے تدارک کے لیے کارروائی کرے گی اگرچہ ایسی تفصیلات ابھی واضح نہیں کہ وہ ایسا کیسے کرے گی۔ جگہ پر بلڈوزر کام کر رہے ہیں جو کچرے کی کھدائی کر رہے ہیں اور اسے نامعلوم مقام پر منتقل کر رہے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500