سیاست

ایران میں انٹیلی جنس کی یکسر تجدید سے اس حکومت کے گہرے خدشات بے نقاب

پاکستان فارورڈ

بنا تاریخ کی ایک تصویر میں حسین طالب (دائیں) ایرانی رہنما علی خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ (بائیں) سے بات کر رہے ہیں۔ [آزاد فارسی]

بنا تاریخ کی ایک تصویر میں حسین طالب (دائیں) ایرانی رہنما علی خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ (بائیں) سے بات کر رہے ہیں۔ [آزاد فارسی]

ایران میں واضح سیکیورٹی نقائص سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کی انٹیلی جنس ڈویژن پر کڑی تنقید اور کلیدی انٹیلی جنس عہدوں پر موجود کرداروں میں ایک بڑی تجدید کا باعث بنے۔

23 جون کو آئی آر جی سی نے اعلان کیا کہ ایران کی انٹیلی جنس کے ڈھانچے میں سب سے زیادہ طاقتور کردار، ان کے انٹیلی جنس سربراہ کو 13 برس تک اپنے عہدے پر فائز رہنے کے بعد ہٹا دیا گیا۔

ایران کے روزنامہ شرق کے ساتھ ساتھ متعدد تجزیہ کاروں نے اس تبدیلی کو ایک ”سیاسی زلزلے“ کے طور پر بیان کیا ہے۔

ایک ”سحر کن کردار“ کے طور پر بیان کیے جانے والے درمیانے درجے کے عالمِ دین، حسین طالب آئی آر جی سی انٹیلی جنس ڈویژن کے قیام سے مرکزی حیثیت کے حامل تھے۔

بنا تاریخ کے ایک تصویر میں حسین طالب [تسنیم نیوز]

بنا تاریخ کے ایک تصویر میں حسین طالب [تسنیم نیوز]

23 جون کو محمد کاظمی نے آئی آر جی سی کے انٹیلی جنس سربراہ کے طور پر حسین طالب کی جگہ لی۔ [سوشل میڈیا پر زیرِ گردش تصویر]

23 جون کو محمد کاظمی نے آئی آر جی سی کے انٹیلی جنس سربراہ کے طور پر حسین طالب کی جگہ لی۔ [سوشل میڈیا پر زیرِ گردش تصویر]

ان کی جگہ جنرل محمد کاظمی نے لی جو قبل ازاں انٹیلی جنس پروٹیکشن آرگنائیزیشن نے نام سے معروف آئی آر جی سی کی انسدادِ انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ تھے۔

درایں اثناء، کاظمی کے عہدے کو ٱئی ٱر جی سی کے عہدیدیار ماجد خادمی، جو ماجد حسیسنی کے نام سے بھی معروف ہیں، نے پُر کیا۔

جون 25 کو ایک اور بڑی تبدیلی کا اعلان بھی کیا گیا۔

ایرانی رہنما علی خامنہ ای اور ان کے اہلِ خانہ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ دار فورس کے کماندار ابراہیم جبّاری کو حسین مشروئےفر سے بدل دیا گیا۔

مشاہدین کا کہنا ہے کہ جبّاری کو تبدیل کیے جانے سے خامنہ ای کی زندگی اور ان کے قریبی لوگوں کی زندگیوں کے لیے ان کے ذاتی خدشات سامنے آتے ہیں۔

سیکیورٹی ناکامی

تائب کی معذولی متعدد انٹیلی جنس لیکس اور قتل کے واقعات پر ختم ہونے والے حالیہ سیکیورٹی ناکامیوں کے ایک سلسلہ کے بعد سامنے آئی۔

نومبر 2020 میں ایرانی جوہری منصوبہ ساز محسن فخرزادے کے قتل کے بعد ایک باعثِ تفرقہ کردار، تائب، جن سے متعدد ناخوش تھے، پر اولاً آئی آر جی سی موافق گروہوں نے کڑی تنقید کی۔

فخرزادے کے قتل نے حالیہ برسوں میں ہونے والے قتل کے مشتبہ واقعات کی فہرست میں اضافہ کیا، ایک حساس عسکری مقام پر دھماکوں، اور ایران میں ایک جوہری تنصیب سے جوہری اور میزائل پروگرام کی حساس دستاویزات چوری ہونا ایران کی انٹیلی جنس استعداد پر تنقید کی ایک بارش کا باعث بنے۔

فخرزادے کی موت کے بعد، ایران کے اس وقت کے وزیرِ برائے انٹیلی جنس محمود علوی نے تسلیم کیا کہ ملک کی مسلح افواج کا ایک رکن اس سانحہ میں ملوث تھا۔

انہوں نے ریاستی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں بنا وضاحت کیے کہا، ”جس شخص نے قتل کی ابتدائی تیاریاں کیں، وہ مسلح افواج کا ایک رکن تھا۔“

اس وقت ایران کی شوریٰٔ عالی امنیتِ ملّی کے سیکریٹری، ریئر ایڈمیرل علی شامخانی نے کہا کہ قتل کے اس ”پیچیدہ“ آپریشن کی تیاری دو دہائیوں سے کی جا رہی تھی اور ایران کی انٹیلی جنس برادری کو اس کی خبر تھی۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ، جیسا کہ آپریشن کا وقت اور تفصیلات وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل کر دی گئیں، ایران کی انٹیلی جنس فورسز ”بدقسمتی سے مطابقت سے کاروائی نہ کر سکیں۔“

قتل کے دیگر واقعات نے اس حکومت کی انٹیلی جنس استعداد پر تنقید کو بھڑکا دیا۔

مبینہ طور پر آئی آر جی سی قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو ایف) کے شام میں مصروفِ عمل یونٹ 840 کے نائب کماندار کرنل حسین صیّاد خدائی کو 22 مئی کو تہران میں ان کے گھر کے باہر ان کی گاڑی میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

اس کے 10 روز سے بھی کم عرصہ بعد، ایک اور آئی آر جی سی – کیو ایف کرنل، کرنل علی اسماعیل زادے تہران سے تقریباً 35 کلومیٹر مغرب میں کرج میں پراسرار حالات میں جاںبحق ہو گئے۔

اسماعیل زادے صیّاد خدائی کے ایک قریبی ساتھی تھے۔

13 جون کو آئی آر جیسی ایئروسپیس ڈویژن کے ایک رکن علی کمانی وسطی صوبہ میں خُمین میں ایک مشن پر قتل کر دیے گئے۔

جداگانہ طور پر، وزارتِ دفاع و مسلح افواج لاجسٹکس نے ایک بیان میں کہا کہ وزارت کے ایک ملازم محمّد عبدوس کو شمالی صوبہ سیمان میں ”ایک مشن کے دوران“ 12 جون کو قتل کر دیا گیا۔

آئی آر جی سی سے منسلک فارس نیوز نے خبر دی کہ 33 سالہ عبدوس نے ایئروسپیس کے شعبہ میں بھی کام کیا تھا۔

مانا جاتا ہے کہ آئی آر جی سی کا ایئروسپیس پروگرام ایران کے بالیسٹیک میزائل پروگرام اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے چند فضائی دفاعوں کا بھی انچارج ہے۔

تائب: ایک باعثِ تفرقہ کردار

تائب، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خامنہ ای کے بیٹے مجتبیٰ کے نہایت قریب ہیں، اپنی کارکردگی سے بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کے باوجود طاقت کو محدود کرنے والے کسی بھی تحریری قانون کے بنا اس ادارے کے کرتا دھرتا رہے۔

وہ 2009 کے پرتشدد کریک ڈاؤن کے منصوبہ ساز تھے، جو صدارتی انتخابات کے متنازع نتائج کے باعث ایران میں گرین تحریک کے باعث بنا۔

تائب، جو کال ہی تقاریر کیا کرتے تھے، افراد کے خلاف منصوبے بنانے کے لیے معروف تھے، وہ جاسوسی کے جھوٹے الزامات میں متعدد ماحولیاتی فعالیت پسندوں – جن میں سے ایک جیل میں ہلاک ہو گیا – کو قید کیے جانے کی پشت پر بھی تھے۔

وہ دہری شہریت کے حامل متعدد افراد کو ایران کے دروں کے دوران قید کیے جانے کے پیچھے بھی تھے، جن میں سے چند تاحال قید ہیں۔

ایک ایران اساسی ماہرِ امورِ سلامتی، علی شاکری نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، ”تائب بظاہر اپنے دفتر سے زیادہ بڑے بن چکے تھے۔ اپنے ملک کی سلامتی کے تحفظ کے بجائے، وہ نطریاتِ سازش اور افراد کو محسور رکھنے کی جانب بہت زیادہ میلان رکھتے تھے۔“

تاہم، شاکری نے کہا، ”جیسا کہ انہوں نے 13 برس قبل نو تشکیل شدہ آئی آر جی سی انٹیلی جنس ڈویژن کی قیادت سے قبل خامنہ ای کے دفتر میں کام کیا تھا، اور وہ خامنہ ای کے قریبی دائرہ میں تھے، انہیں اپنے گرد موجود اختلافات کے باوجود اپنے عہدے پر برقرار رکھا گیا۔“

2018 میں ایک انٹرویو میں سابق صدر محمود احمدی نژاد نے کہا کہ وہ تائب کے اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے ”خلاف ہیں“ کیوں کہ وہ ایک ”باعثِ تفرقہ“ کردار ہیں۔

حال ہی میں اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹس نے تائب پر دورانِ تعطیل ترکی میں اسرائیلی شہریوں کو قتل یا اغوا کرنے کے مبینہ ایرانی منصوبے کی منصوبہ سازی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ترک انٹیلی جنس کی جانب سے ترکی میں ایران کے منصوبہ کو ناکام بنا دیے جانے کے بعد، تائب کی ممکنہ معذولی کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔

امریکہ اساسی ماہرِ امورِ ایران، فریدون محبّی نے المشرق سے بات کرتے ہوئے کہا، ”افواہیں ہیں کہ تائب جاسوس ہو سکتے ہیں، لیکن وہ نظام کے اس قدر قریب ہیں اور اتنا کچھ جانتے ہیں کہ انہیں طبعی طور پر ہٹایا نہیں جا سکتا۔“

انہوں نے کہا، ”بعض کہتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں، لیکن میری طرح کے دیگر خیال کرتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں طاقت کے مرکز میں ہر عنصر کی ایک قیمت ہے، اور اگر یہ قیمت ادا کر دی جائے تو وہ ایک جاسوس بن سکتے ہیں۔“

23 جون کو تائب کو آئی آر جی سی کے کلّی کماندار حسین سلامی کا ”مشیرِ اعلیٰ“ مقرر کیا گیا، تاہم متعدد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ عہداہ ”برائے نام ہی“ ہے۔

کمزور انسدادِ انٹیلی جنس

تائب کی جگہ کاظمی کی تعیناتی ظاہر کرتی ہے کہ خامنہ ای اور ان کے حلقہ کا ماننا ہے کہ انسدادِ انٹیلی جنس اور انسدادِ جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملک کی کمزوری حکومت کو مزید نقصان پہنچائے گی۔

متعدد مشاہدین کا کہنا ہے کہ آئی آر جی سی کے انٹیلی جنس نظام میں حالیہ تبدیلیاں ممکنہ طور پر سیکیورٹی ناکامیوں، غیرملکی مداخلت اور انٹیلی جنس ڈھانچے پر شدّت پسندوں کی تنقید کا نتیجہ ہیں۔

دیگر کا اندازہ ہے کہ یہ تبدیلیاں آئی آر جیسی، آئی آر جی سی – کیو ایف اور وزارتِ انٹیلی جنس کی داخلی لڑائی کا شاخسانہ ہیں جو مسلسل آئی آر جی سی کے انٹیلی جنس ڈھانچے کے زیرِ اثر رہی ہے۔

آئی آر جی سی اور وزارتِ انٹیلی جنس کے مابین تناؤ بطورِ خاص اس وقت سامنے آیا جب اول الزکر نے وزارت نے متعدد ماحولیاتی فعالیت پسندوں کے بارے میں کہا کہ وہ جاسوس نہیں اور آئی آر جی سی کو انہیں چھوڑ دینا چاہیئے، لیکن بعد الزکر نے انہیں چھوڑنے سے انکار کر دیا۔

درایں اثناء، آئی آر جی سی – کیو ایف مبینہ طور پر مزید انٹیلی جنس اور قوتِ فیصلہ سازی کی خواہشمند ہے، تاہم اطلاعات ہیں کہ یہ امر واضح ہے کہ حتمی اختیار آئی آر جی سی کی انٹیلی جنس ڈویژن کے پاس ہی رہے گا۔

حالیہ تجدید ایک کمزور، مداخلت شدہ انٹیلی جنس ڈھانچے اور حکومت اور آئی آر جی سی کے مابین اختیار کے لیے جاری کوشش کا ثبوت ہے، جو حکومت کو شدید فیصلوں کی جانب لے گئی، جبکہ وہ خود کو درپیش بڑھتے ہوئے مسائل سے نبردآزما ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500