ٹیکنالوجی

جوہری مذاکرات میں جاری مشکلات کے دوران ایران کی طرف سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کا تجربہ

بابک دشتی

9 فروری کو آئی آر جی سی کے میزائلوں کی نمائش۔ [آئی آر جی سی]

9 فروری کو آئی آر جی سی کے میزائلوں کی نمائش۔ [آئی آر جی سی]

یہاں تک کہ جب ایران 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں "پیچیدہ اور مشکل" بات چیت کر رہا ہے، جس میں اسے اپنے جوہری پروگرام پر روک لگانے کے بدلے، پابندیوں میں کمی کی پیشکش کی گئی تھی، حکومت میزائل بنانے میں اپنی مبینہ پیش رفت کو دنیا کے سامنے دکھا رہی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے پیر (14 فروری) کو کہا کہ ان کا خیال ہے کہ جلد ہی ایک معاہدہ ہونے والا ہے۔

ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے دورہ پر آئے ہوئے آئرلینڈ کے وزیرِ خارجہ و دفاع کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "ہم ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لیے سنجیدہ اور تیار ہیں۔"

جوہری معاہدے کے مذاکرات میں حصہ لینے والی عالمی طاقتوں نے بارہا کہا ہے کہ انہیں بیلسٹک میزائلوں پر ایران کی تخفیف پر قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اے ایف پی کے مطابق اس وقت مشرق وسطیٰ میں میزائلوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ایران کے پاس ہی ہے۔

اپریل 2020 کو عسکری سیٹلائٹ نور-ون کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ [موج نیوز]

اپریل 2020 کو عسکری سیٹلائٹ نور-ون کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ [موج نیوز]

اور یہ جوہری جنگی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے، طویل فاصلے تک مار کرنے والے مہلک ہتھیاروں کو بنانے کی اپنی صلاحیت میں کمی لانے کی، کوئی علامت ظاہر نہیں کرتا ہے۔

ابھی پچھلے ہفتے، 9 فروری کو، ایران کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) نے 1,450 کلومیٹر کی بیان کردہ پہنچ -- ایک ایسی پہنچ جو اسرائیل کو قابلِ رسائی بنا دے گی-- کے ساتھ، سطح سے سطح پر مار کرنے والے میزائل بنانے کا اعلان کیا۔

آئی آر جی سی کی سپاہ نیوز ویب سائٹ نے کہا کہ میزائل، جسے خیبرچکان کا نام دیا گیا ہے، "ٹھوس ایندھن سے چلتا ہے اور میزائل شکن نظامات کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے"۔

ایران کی مسلح افواج کے چیف آف سٹاف محمد باقری نے اسے "اسٹریٹجک طویل فاصلے تک مار کرنے والا" میزائل قرار دیا۔

24 دسمبر کو، اسلامی جمہوریہ نے ان فوجی مشقوں کے اختتام پر 16 بیلسٹک میزائل داغے جنہیں آئی آر جی سی کے حکام نے "اسرائیل کے لیے انتباہ" کے طور پر بیان کیا ہے۔

باقری نے 7 فروری کو کہا کہ ایران "فوجی سازوسامان کے لحاظ سے خود کفیل" ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکی پابندیاں ہٹا دی گئیں تو وہ دنیا کے سب سے بڑے ہتھیار برآمد کنندگان میں سے ایک بن سکتا ہے۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے مطابق ایران کے پاس تقریباً 20 قسم کے بیلسٹک میزائلوں کے ساتھ ساتھ کروز میزائل اور ڈرون بھی ہیں۔

ان کی صلاحیتیں مختلف ہیں، قیام - ون کی پہنچ 800 کلومیٹر تک ہے اور غدر - ون 1،800 کلومیٹر تک پہنچنے کے قابل ہے۔

آئی آئی ایس ایس کا کہنا ہے کہ اس وقت ایران کی ترجیح اپنے میزائلوں کی درستگی کو بڑھانا ہے۔

ناکام کوششیں

ایران کے خلائی اور میزائل پروگرام کو حالیہ برسوں میں کئی دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں آگ لگنے کے مہلک واقعات اور لانچ پیڈ پر ہونے والا راکٹ کا دھماکہ بھی شامل ہیں۔

دسمبر کے آخر میں "سیمرغ" (فینکس) سیٹلائٹ لانچ کرنے کے اعلان کے بعد، ایرانی حکام نے تسلیم کیا کہ سیٹلائٹ اپنے تین پے لوڈز کو مدار میں لے جانے میں ناکام رہا ہے۔

ناکامی کو تسلیم کیے جانے کے باوجود، آئی آر جی سی ایرو اسپیس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نے 13 جنوری کو کہا کہ ایران پہلی بار، اپنے سیٹلائٹ کیریئرز کو ٹھوس ایندھن کے ذریعے دھکیلنے کا تجربہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

ایرانی کمانڈر نے کہا کہ "گزشتہ دو سالوں کے دوران، ایسے تمام ایرانی سیٹلائٹ کیریئرز، جن کا تجربہ کیا گیا تھا، مائع ایندھن پر چلتے تھے۔ لیکن اس تجربے میں، ہم 66 ٹن زور کے ساتھ ٹھوس ایندھن کے انجن کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے"۔

حاجی زادہ نے کہا کہ تہران نے "کئی سیٹلائٹس کو سستے انجنوں کے ساتھ خلا میں کامیابی کے ساتھ چھوڑا ہے"۔

ابھی چند روز قبل ہی ایران کی ایرو اسپیس انڈسٹریز آرگنائزیشن نے، جو وزارت دفاع کے زیرِ نگرانی کام کرتی ہے، سیمنان کے خمینی خلائی مرکز سے ایک سیٹلائٹ راکٹ (رفیع) لانچ کیا۔

دفاعی ماہر بابک تگھوائی نے کہا کہ "سیٹلائٹ راکٹ عام طور پر مائع ایندھن کا استعمال کرتے ہیں لیکن ٹھوس ایندھن کے استعمال سے، میزائلوں کو موبائل لانچرز سے چلایا جانا ممکن ہو جاتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "بیلسٹک میزائل سسٹم ٹھوس ایندھن سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ میزائل عام طور پر صرف جوہری جنگی ہتھیار لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی زیادہ قیمت اور صرف ہلکے پے لوڈ لے جانے کی صلاحیت ہے۔"

فروری 2020 میں، ایران نے اعلان کیا کہ سیمرغ راکٹ نے ظفر سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں چھوڑا ہے لیکن وہ اسے مدار میں بھیجنے میں ناکام رہا کیونکہ وہ مطلوبہ رفتار تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ایرانی رہنما علی خامنہ ای کے حکم پر، ابھی تک آئی آر جی سی کے بیلسٹک میزائل کی پہنچ کو، زیادہ سے زیادہ 2500 کلومیٹر کی حد تک رکھا گیا ہے۔

طاغوائی نے کہا کہ "اب ایسے سیٹلائٹ راکٹوں کی نقاب کشائی سے، جو براعظمی بیلسٹک میزائلوں میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسلامی جمہوریہ ویانا کے جوہری مذاکرات کے دوران برتری حاصل کرنے کی کوشش اور اس طرح کے میزائل بنانے کے لیے اپنی طاقت، کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

'متوازی' سرگرمیاں

حالیہ برسوں میں، آئی آر جی سی ایرو اسپیس فورس، ایرو اسپیس آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر سیٹلائٹ تیار کرنے اور انہیں بنانے کے لیے کام کرتی رہی ہے۔

دونوں ایک ہی مقصد کے ساتھ ایک ہی مہم میں مصروف رہے ہیں، حالانکہ وہ اپنے کام کے لیے مختلف طریقہ کار اور پروٹوکول استعمال کرتے رہے ہیں۔

مبصرین نے کہا کہ عام طور پر آئی آر جی سی کی سرگرمیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی حکومتی وزارتوں سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔

اپریل 2020 میں، آئی آر جی سی ایرو اسپیس فورس نے اعلان کیا کہ اس نے نور-ون ملٹری سیٹلائٹ کو شاہرود سے 35 کلومیٹر جنوب مشرق میں، اپنی خلائی جگہ سے مدار میں چھوڑا ہے۔

لیکن امریکی خلائی کمانڈ (سپیسکام) کے سربراہ جنرل جے ریمنڈ کے مطابق، نام نہاد "سیٹیلائٹ" دراصل ایک "لڑکھڑاتا ہوا ویب کیم" ہے۔

نور- ون ایران کے لیے شرمندگی کا باعث رہا ہے، کیونکہ آئی آر جی سی نے دعویٰ کیا کہ اس نے جولائی 2020 میں ہونے والی فوجی مشقوں میں تعاون کے لیے سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کو استعمال کیا تھا۔

آئی آر جی سی نے یہ دعوی بھی کیا کہ سیٹلائٹ نے قطر میں العدید ایئر بیس سمیت خطے کے دیگر علاقوں کی تصاویر لیں۔

لیکن کچھ عرصہ بعد ہی، مبصرین نے جاری کی گئی تصاویر اور گوگل ارتھ کی طرف سے لی گئی تصاویر میں بڑی مماثلت دیکھی، جس سے قیاس آرائیاں ہوئیں کہ نور-ون کی تصاویر مستند نہیں تھیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500