دہشتگردی

تہران میں القاعدہ کے چوٹی کے رہنما کی موت سے ایران کے لیے نا خوشگوار سوالات

پاکستان فارورڈ

1998 میں نیروبی، کینیا میں امریکی سفارتخانے کے قریب آٹھ امریکیوں سمیت 60 افراد کے جاںبحق ہونے اور 1,000 دیگر سے زائد کے زخمی ہونے کا باعثت بننے والا ایک بم پھٹنے کے بعد شہری اور آگ بجھانے کا عملہ لاشیں ہٹا رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

1998 میں نیروبی، کینیا میں امریکی سفارتخانے کے قریب آٹھ امریکیوں سمیت 60 افراد کے جاںبحق ہونے اور 1,000 دیگر سے زائد کے زخمی ہونے کا باعثت بننے والا ایک بم پھٹنے کے بعد شہری اور آگ بجھانے کا عملہ لاشیں ہٹا رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

تہران – حیرت کی بات نہیں کہ حکومتِ ایران اس رپورٹ کو جھٹلا رہی ہے کہ القاعدہ کے نائب عبداللہ احمد عبداللہ – المعروف ابومحمد المرسی – کو اسرائیلی ایجنٹس نے تہران میں خفیہ طور پر قتل کیا۔

یہ امر زیادہ واضح نہیں کہ ایرانی عہدیداران نے کیوں المرسی کو کئی برس تک تہران کے ایک پرشکوہ مضافاتی علاقہ میں تحفظ فراہم کیا۔

نیویارک ٹائمز نے جمعہ (13 نومبر) کو خبر دی کہ 1998 میں تنزانیہ اور کینیا میں سفارت خانوں پر مربوط بم حملوں کے سلسلہ میں امریکہ میں زیرِ استغاثہ، المرسی کو رواں موسمِ گرما میں واشنگٹن کی ہدایات پر ایک موٹر سائیکل پر سوار اسرائیلی ایجنٹس نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

اس اخبار نے متعدد انٹیلی جنس ذرائع کے حوالہ سے خبر دی کہ القاعدہ کا یہ اعلیٰ رہنما اپنی بیٹی، عثامہ بن لادن کے بیٹے حمزہ کی بیوی، مریم کے ساتھ قتل ہو گیا۔

چوٹی کے القاعدہ رہنما عبداللہ احمد عبداللہ المعروف ابو محمد المسری کو 7 اگست 1998 کو دارالسلام، تنزانیہ اور نیروبی، کینیا میں بم حملوں میں اس کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق، وہ رواں برس کے اوائل میں مارا گیا۔ [امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن]

چوٹی کے القاعدہ رہنما عبداللہ احمد عبداللہ المعروف ابو محمد المسری کو 7 اگست 1998 کو دارالسلام، تنزانیہ اور نیروبی، کینیا میں بم حملوں میں اس کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق، وہ رواں برس کے اوائل میں مارا گیا۔ [امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن]

یکم نومبر 2017 کو امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے جاری شدہ سے ایک ویڈیو سے لیے گئے ایک سکرین شاٹ میں القاعدہ کے متوفی رہنما عثامہ بن لادن کا بیٹا حمزہ بن لادن (بائیں) ایران میں اپنی شادی کی تقریب منا رہا ہے۔ حمزہ بن لادن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ طویل عرصہ سے ایران کے زیرِ تحفظ زندگی گزار رہا تھا، اور القاعدہ کے متوفی رہنما نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ امریکی افواج نے چھوٹے بن لادن کو 2019 میں افغان پاکستانی سرحدی علاقہ میں کسی مقام پر قتل کر دیا تھا۔ [فائل]

یکم نومبر 2017 کو امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے جاری شدہ سے ایک ویڈیو سے لیے گئے ایک سکرین شاٹ میں القاعدہ کے متوفی رہنما عثامہ بن لادن کا بیٹا حمزہ بن لادن (بائیں) ایران میں اپنی شادی کی تقریب منا رہا ہے۔ حمزہ بن لادن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ طویل عرصہ سے ایران کے زیرِ تحفظ زندگی گزار رہا تھا، اور القاعدہ کے متوفی رہنما نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ امریکی افواج نے چھوٹے بن لادن کو 2019 میں افغان پاکستانی سرحدی علاقہ میں کسی مقام پر قتل کر دیا تھا۔ [فائل]

یہ حملہ 7 اگست کو 224 افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کا باعث بننے والے افریقہ بم حملوں کے برسویں دن ہوا۔

امریکی انٹیلی جنس حکام نے دی ٹائمز کو بتایا کہ المرسی 2003 سے ایران کی "حراست" میں ہے، لیکن کم از کم 2015 سے وہ تہران کے پرشکوہ مضافاتی علاقہ پاسداران میں آزادانہ رہ رہا ہے۔

پردہ ڈالنے کے لیے ایک خوشنما لیکن جھوٹی کہانی

دی ٹائمز نے کہا کہ 7 اگست کی صبح المرسی اپنے گھر کے قریب اپنی بیٹی کے ساتھ ایک رینالٹ سیڈان چلا رہا تھا کہ دو موٹرسائیکل سوار بندوق برداروں نے ان پر پانچ مرتبہ گولی چلائی۔

دو ایرانی خبر رساں ایجنسیوں – سرکاری ارنا اور مہر – نے اس وقت اس سے ملتے جلتے ایک سانحہ کی خبر دی اور کوئی مزید تفصیلات بتائے بغیر متاثرین کی شناخت تاریخ کے 58 سالہ لبنانی استاد اور ان کی 27 سالہ بیٹی مریم کے طور پر بتائی۔

لبنانی نیوز چینل ایم ٹی وی اور سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامیٴ ایران (آئی آر جی سی) سے ملحقہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے خبر دی کہ داؤد لبنان میں ایران کی پشت پناہی کی حامل عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کا ایک رکن تھا۔

دی نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ یہ خبریں خوشنما دکھائی دیتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی حبیب داؤد وجود نہیں رکھتا۔

اخبار نے کہا کہ ایران کے ساتھ قریبی روابط رکھنے والے متعدد لبنانیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی حبیب داؤد یا اس کے قتل سے متعلق نہیں سنا۔ گزشتہ موسمِ سرما میں ایران میں تاریخ کے کسی لبنانی پروفیسر کے قتل ہونے کی کوئی خبریں نہیں، اور ایران میں تاریخ کے تمام پروفیسروں کی فہرست تک رسائی رکھنے والے ایک تعلیم کے محقق کا کہنا ہے کہ حبیب داؤد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔

ایک انٹیلی جنس عہدیدار نے کہا کہ درحقیقت "حبیب داؤد" وہ عرفیت ہے جو ایرانی حکام المرسی کے لیے استعمال کرتے تھے۔

القاعدہ سے ملحقہ مصر کے جہادِ اسلامی کے سابق رہنما اور المرسی کے ایک پرانے دوست نبیل نعیم نے سعودی نیوز چینل العربیّہ کو اکتوبر میں یہی بات بتائی۔

ایران کی وزارتِ خارجہ نے اس خبر کو "گھڑی گئی معلومات" کے طورپر مسترد کر دیا۔

حکومتِ ایران کے ساتھ تعلقات

المرسی القاعدہ کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھا اور اس کے حالیہ رہنماایمن الزواہریکے بعد اس تنظیم کی قیادت کرنے والوں میں پہلے نمبر پر خیال کیا جاتا تھا۔

2001 میں امریکہ پر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد، المرسی، سیف العدل اور حمزہ بن لادن القاعدہ کے اعلیٰ رہنماؤں کے ایک ایسے گروہ کے جزُ تھے جو افغانستان سے فرار ہو گیا اور ایران میں پناہ لی۔

دہشتگردی کے ماہرین کے مطابق، ایران میں المرسی حمزہ بن لادن کا اتالیق رہا، جس کی تربیت تنظیم کی باگ ڈور سنبھالنے کے حوالہ سے کی گئی۔ گزشتہ برس افغانستان-پاکستان کے خطہ میں انسدادِ دہشتگردی کے ایک آپریشن میں حمزہ بن لادن کو قتل کیا گیا۔

العدل تاحال آزاد ہے۔

2017 میں حکومتِ امریکہ نے 2011 میں ایبٹ آباد، پاکستان میں امریکی نیوی سیلز کے ہاتھوں قتل ہونے والے عثامہ بن لادن کے احاطے سے بازیاب کی گئی دستاویزات کا ایک ذخیرہ جاری کیا۔

ایران میں حمزہ کی شادی کی فوٹیج سمیتان دستاویزات نے القاعدہ کے تہران کے ساتھ مشکوک تعلقات پر نئی روشنی ڈالی۔

المرسی کا حالیہ قتل اور چند برسوں میں دیگر شواہد کے ساتھ ساتھ یہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ حکومتِ ایران، بالخصوص آئی آر جی سی کے القاعدہ کے ساتھ مستحکم تعلقات ہیں۔

آئی آر جی سی پر الزام ہے کہ انہوں نے کثیر تعداد میں بین الاقوامی حکام سے فرار القاعدہ کے عناصر کی میزبانی کی ہے۔

مصر میں جہادِ اسلامی کے سابق سربراہ، نعیم، جنہوں نے دہشتگردی ترک کر دی ہے، کے مطابق،جنوری میں بغداد میں قتل ہونے والے آئی آر جی سی کی ایلیٹ قدس فورس کے اس وقت کے کمانڈر میجر جنرل قسیم سلیمانی "آئی آر جی سی اور القاعدہ کے مابین تعلقات کے معمار تھے۔"

انہوں نے مزید کہا، 2008 میں شام میں قتل ہونے سے قبل، حزب اللہ کے عسکری کماندار ایماد مغنیہ نے بھی "[القاعدہ] کے عناصر کو بالخصوص پھندا لگا کر حملہ کرنے اور بم حملے کرنے کے طریقوں پر تربیت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔"

انہوں نے اس امر کا حوالہ دیتے ہوئے کہ "جب ایران نے القاعدہ کے رہنما عثامہ بن لادن کے خاندان کی میزبانی کی، تعلقات کی علامت واضح تھی"، کہا کہ آئی آر جی سی اور ایرانی انٹلی جنس، ہر دو کے ساتھ القاعدہ کا تعلق مضبوط ہے۔

نعیم نے کہا کہ "آئی آر جی سی خود کو شعیہ کے حقوق کا تحفظ کرنے اور ان کا دفاع کرنے والی ظاہر کر کے، اور القاعدہ سنّی برادری کے ساتھ یہی ہتھکنڈے استعمال کر کے" طرفین کئی برسوں سے فرقہ ورانہ تناؤ کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔

ایران مسلسل القاعدہ عہدیداران کی میزبانی کرنے کی تردید کرتا رہا ہے، لیکن حالیہ انکشافات کے ساتھ اس جماعتی بیانیہ پر یقین کرنا مشکل ہے۔

سئوفان سنٹر میں انسدادِ دہشتگردی کے ایک تجزیہ کار کولن پی کلارک نے نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "ایران اس وقت فرقہ واریت کو ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے جب یہ اس کی حکومت کے لیے مناسب ہو، لیکن جب ایرانی مفادات کے موافق ہو تو یہ سنّی شعیہ تفریق کو نظرانداز بھی کر دیتا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500