سلامتی

پشاور میں داعش کے کے منصوبہ ساز کے قتل سے مرکزی داعش کے منصوبے ناکام

زرق خان

5 مارچ کو پشاور میں ایک خودکش حملے کے ایک روز بعد بم دھماکے کا شکار ہونے والوں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سوگواران پہنچ رہے ہیں، جبکہ پولیس کھڑی پہرہ دے رہی ہے۔ [عبدالمجید / اے ایف پی]

5 مارچ کو پشاور میں ایک خودکش حملے کے ایک روز بعد بم دھماکے کا شکار ہونے والوں کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے سوگواران پہنچ رہے ہیں، جبکہ پولیس کھڑی پہرہ دے رہی ہے۔ [عبدالمجید / اے ایف پی]

اسلام آباد – پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ”دولتِ اسلامیۂ عراق وشام“ (داعش-کے) کی خراسان شاخ کے ایک کمانڈر کے قتل نے اس گروہ کو ایک بڑا دھچکہ لگایا ہے۔

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق، خیبر پختونخوا کے شعبۂ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے ہفتہ (14 مئی) کو پشاور کے علاقہ پشتہ خرہ میں انٹیلی جنس پر مبنی ایک آپریشن میں داعش-کے کے ایک کمانڈر حسن شاہ کو ایک ممکنہ خودکش بمبار کے ہمراہ ہلاک کر دیا۔

ایک سی ٹی ڈی عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھی جانے کی شرط پر بتایا کہ 28 سالہ شاہ نے مارچ میں پشاور میں ایک شعیہ مسجد پر ایک خودکش حملے کی منصوبہ سازی کی جس میں 64 سے زائد نمازی جاںبحق ہو گئے۔

اس عہدیدار نے کہا کہ شاہ کو حال ہی میں خطے میں اپنی کاروائیوں کی وجہ سے مرکزی داعش کے ایک ہفت روزہ جریدہ النباء میں پیش کیا گیا، اور داعش کے تنظیمی ڈھانچے میں اس کی متعلقہ اہمیت کا اعتراف کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبل ازاں داعش-کے میں شمولیت سے قبل شاہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسلک تھا۔

داعش کی اعلیٰ قیادت نے جولائی 2014 میں پاکستان اور افغانستان کے لیے اپنی خراسان شاخ تشکیل دی۔

پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسند گروہوں کی نگرانی رکھنے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک محقق رئیس احمد نے کہا کہ داعش کے میں ٹی ٹی پی اور ایک دیگر کالعدم عسکریت پسند گروہ لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) کے سابق ارکان کی ایک بڑی تعداد ہے۔

احمد نے کہا، ”اگرچہ متعدد ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں نے داعش-کے سے اپنا الحاق ختم کر دیا ہے، تاہم باجوڑ، اورکزئی اور پشاور کے اضلاع سے ایک بڑی تعداد اور ایل ای جے کے دھڑے تاحال اس بین الاقوامی دہشگرد گروہ سے منسلک ہیں۔“

تنبیہات آتی رہی ہیں کہ اگست میں افغان حکومت کے سکوت کے بعد سے افغانستان بھرتی کا میدان بن سکتا ہے اور عسکریت پسندوں کے لیے حملے کرنے کی چھاؤنی بن سکتا ہے۔

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق شاہ کے ہمراہ قتل ہونے والا ممکنہ خودکش بمبار تاجک النسل افغان شہری تھا۔

مارچ میں پشاور میں ہونے والے حملے کا ذمہ دار خودکش بمبار بھی افغان شہری تھا جو اپنی عمر کی تیسویں دہائی میں تھا اور کچھ دہائیوں قبل پاکستان آ گیا تھا۔

کریک ڈاؤن جاری

پاکستانی حکام ملک میں اور بطورِ خاص صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں داعش – کے کے خلاف ایک جاری کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جو کہ گزشتہ برس اگست میں ہمسایہ افغانستان میں گزشتہ حکومت کے سکوت کے بعد ممکنہ سکیورٹی خدشات کی یبخ کنی کے لیے ایک کوشش کا جزُ ہے۔

8 مارچ کو کے پی کے سی ٹی ڈی نے افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے مشترکہ سرحد کے حامل پاکستانی ضلع خیبر کے علاقہ جمرود میں انٹیلی جنس پر مبنی ایک آپریشن کے دوران داعش-کے کے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔

پولیس نے کہا کہ ہلاک شدگان گزشتہ دو برس کے دوران دو مذہبی رہنماؤں، شیخ عبدالحمید اور قاری شیخ محمد، اور ایک سکھ تاجر کے قتل سمیت متعدد دہشتگردانہ حملوں میں ملوث تھے۔

قبل ازاں 29 دسمبر کو پاکستانی حکام نے اعلان کیا کہ نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے 2021 میں صوبہ کے پی میں داعش کے کے پانچ بڑے گروہوں کو توڑا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ عہدیدار جاوید اقبال وزیر نے اس وقت کہا کہ ان گروہوں میں پشاور ریجن سے تین اور بنوں ڈویژن سے دو گروہ شامل تھے۔

ستمبر میں مستونگ میں ایک دیگر آپریشن میں سیکیورٹی فورسز نے داعش –کے کمانڈر ممتاز احمد المعروف پہلوان کو قتل کیا جس نے 2018 میں ایک انتخابی ریلی میں ہونے والے بم حملے کی منصوبہ سازی کی تھی، جس میں 150 سے زائد افراد جاںبحق اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے ۔

یہ کریک ڈاؤن ان حالیہ حملوں کے بھی دوران ہے جن کی ذمہ داری داعش-کے نے قبول کی۔

داعش- کے نے 15 مئی کو پشاور میں دو سکھ تاجروں کو قتل کرنے کی بھی ذمہ داری قبول کی۔

دونوں حملہ آور ایک موٹرسائیکل پر سوار تھے جب انہوں نے متاثرین – 42 سالہ کنولجیت سنگھ اور 38 سالہ رنجیت سنگھ – جو بازار میں مصالحوں کی ایک دکان کے مالک تھے، پر گولی چلا دی۔

داعش – کے نے 26 اپریل کو ضلع باجوڑ کے علاقہ مومند میں جمیعت علمائے اسلام فضل مذہبی جماعت سے منسلک ایک عالمِ دین مفتی بشیر محمد جان کے قتل کی بھی ذمہ داری قبول کی۔

مارچ میں داعش-کے نے یہ بھی کہا کہ اس نے صوبہ بلوچستان کے ضلع سبّی میں ایک عسکری کانوائے پر حملہ کرتے ہوئے سات عسکری اہلکاروں کو قتل کیا۔

پاکستان میں داعش نے کوشش کی ہے کہ شعیہ اور صوفیوں جیسی مسلمان اقلیتوں کو ہدف بناتے ہوئے فرقہ ورانہ تنازع کو بھڑکایا جائے ۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500