اسلام آباد – "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ داعش-خراسان کے خلاف جاری کریک ڈاؤن نے دہشت گرد گروہ کی سیکیورٹی فورسز پر حملے کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے۔
حکام اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مایوسی کے عالم میں، کمزور گروہ اب زد پزیر اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی پر کام کرنے والے اسلام آباد کے مقامی ایک کارکن عمران نوشاد خان نے کہا، "پاکستان میں، داعش-خراسان باقاعدگی سے کمزور غیر مسلم برادریوں، خصوصاً سکھوں، اور مسلم اقلیتی فرقوں، خاص طور پر شیعہ اور صوفیوں کو نشانہ بناتی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ داعش-خراسان اپنی مطبوعات کے ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھی بھڑکاتی ہے۔
خان نے کہا، "کمزور اور حساس برادریوں جیسے کہ سکھ، صوفی اور شیعہ کو نشانہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ داعش-خراسان کے خلاف جاری کریک ڈاؤن نے گروہ کی سیکیورٹی فورسز جیسے بڑے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو کم کر دیا ہے"۔
پیر (26 جون) کے روز پشاور کی سکھ برادری کے رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات میں، خیبر پختونخوا (کے پی) کے گورنر حاجی غلام علی نے متعلقہ حکام کو سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کرنے اور سکھ برادری کے رہائشی اور کاروباری علاقوں میں کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا حکم دیا۔
علی نے کہا، "سنہ 2008 سے لے کر اب تک صوبے میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں سکھ برادری کے 35 افراد مارے جا چکے ہیں"۔
ایک سکھ تاجر منموہن سنگھ کو گزشتہ ہفتہ کو پشاور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ایک روز قبل پشاور کے علاقے ڈبگری میں ایک اور سکھ کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔
اپریل میں، پشاور کی دیر کالونی میں ایک سکھ کو اس کی دکان میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ گزشتہ سال کوہاٹ اڈہ اور سربند کے قریب بھی سکھوں پر حملوں کی اطلاع ملی تھی۔
مارچ 2022 میں، داعش-خراسان نے پشاور میں ایک شیعہ مسجد پر خودکش حملہ کیا جس میں 64 سے زیادہ نمازی جاں بحق ہوئے۔
داعش-خراسان نے جون 2022 میں کابل، افغانستان میں سکھوں کے گردوارے پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی، جس میں دو افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
کریک ڈاؤن جاری
دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد، پاکستانی حکام نے ملک بھر میں داعش-خراسان کے خلاف اپنا کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔
فوج کے مطابق، بدھ کے روز، قانون نافذ کرنے والے پاکستانی اداروں نے افغانستان کی سرحد کے قریب ان کے ٹھکانے پر چھاپے کے دوران داعش-خراسان کے ایک کمانڈر اور دو دیگر عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔
کے پی کے باجوڑ میں داعش-خراسان کا ایک کمانڈر شفیع اللہ ہلاک ہونے والوں میں سے ایک تھا۔ وہ سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور عام شہریوں کے قتل سمیت دہشت گردی کے کئی مقدمات میں مطلوب تھا۔ حکومت نے اس کے سر پر 2 ملین پاکستانی روپے (7,000 امریکی ڈالر) کا انعام رکھا تھا۔
منگل کے روز، پنجاب پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے کہا کہ اس نے عید الاضحٰی کے موقع پر ، داعش-خراسان سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون سمیت 9 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے دہشت گردی کی ایک بڑی سازش کو ناکام بنا دیا۔
یہ گرفتاریاں افسران کی جانب سے ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے مقامات پر چھاپے مارنے کے بعد کی گئیں۔
سی ٹی ڈی کے ایک ترجمان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا، "صوبے کے مختلف اضلاع سے گرفتار کیے گئے نو عسکریت پسندوں میں، ایک خاتون سمیت پانچ کا تعلق داعش-خراسان سے ہے"۔
انہوں نے کہا، "وہ صوبے میں دہشت گرد حملے کرنے اور سرکاری تنصیبات اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے"۔
کے پی پولیس سی ٹی ڈی نے 6 جون کو کہا کہ قانون نافذ کرنے والے افسران نے ضلع باجوڑ میں ایک کارروائی میں داعش-خراسان کے کمانڈر سبحان اللہ عرف عثمان کو ہلاک کر دیا۔
سی ٹی ڈی کے ایک سینیئر اہلکار امجد خان نے بتایا کہ سبحان اللہ سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں سمیت، دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں مطلوب تھا۔