سلامتی

پاکستان میں برسوں میں ہونے والے مہلک ترین عسکریت پسند حملے پر سوگ

زرق خان اور اے ایف پی

شمال مغربی پاکستان میں 30 جولائی کو، ایک سرکردہ اسلامی جماعت کے ایک سیاسی اجتماع میں خودکش بم دھماکے میں کم از کم 44 افراد کے ہلاک اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد، کارکنان ایک زخمی شخص کو پشاور کے ایک ہسپتال میں منتقل کر رہے ہیں۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

شمال مغربی پاکستان میں 30 جولائی کو، ایک سرکردہ اسلامی جماعت کے ایک سیاسی اجتماع میں خودکش بم دھماکے میں کم از کم 44 افراد کے ہلاک اور درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد، کارکنان ایک زخمی شخص کو پشاور کے ایک ہسپتال میں منتقل کر رہے ہیں۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

اسلام آباد -- پاکستان اس وقت، خیبر پختونخواہ کے ضلع باجوڑ میں اسلام پسند جماعت کی ایک ریلی پر ہونے والے مہلک ترین عسکریت پسندانہ خودکش حملوں میں کم از کم 44 افراد کی ہلاکتوں پر سوگ منا رہا ہے۔

اتوار (30 جولائی) کو افغانستان کے صوبہ کنڑ کی سرحد سے متصل ضلع باجوڑ میں، جمعیت علمائے اسلام (فضل) (جے یو آئی -ایف) کے ایک اجتماع پر ایک خودکش حملہ آور نے حملہ کیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ 150 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

باجوڑ پولیس کے ترجمان محمد اسرار نے بتایا کہ باجوڑ اور ملحقہ اضلاع کے ان ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے جہاں زیادہ تر زخمیوں کو لے جایا گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (فضل) کے اراکین 23 جولائی کو کراچی میں ایک ریلی میں شریک ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

جمعیت علمائے اسلام (فضل) کے اراکین 23 جولائی کو کراچی میں ایک ریلی میں شریک ہیں۔ [زرق خان/پاکستان فارورڈ]

انہوں نے کہا کہ شدید زخمیوں کو فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے باجوڑ سے صوبائی دارالحکومت پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔

دولتِ اسلامیہ کی خراسان شاخ" (داعش-کے) نے پیر (31 جولائی) کو اپنے نیوز بازو عماق کے ذریعے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔

داعش- کے، نے اس سے پہلے بھی باجوڑ میں جے یو آئی- ایف کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے، کیونکہ وہ انہیں مرتد سمجھتے ہیں اور انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔

اپریل 2022 میں، داعش- کے نے فتووں (اسلامی احکام) کا ایک سلسلہ جاری کیا تھا جس میں جے یو آئی- ایف کے مذہبی اسکالرز اور کارکنوں کے قتل کی اجازت دی گئی تھی۔

جے یو آئی - ایف کے ایک رکن قاری صابر ماموند، جن کے دو رشتہ دار اتوار کو ہونے والے اس بم دھماکے میں زخمی ہوئے ہیں، نے کہا کہ "جے یو آئی - ایف ایک پرامن سیاسی جماعت ہے جسے انتخابی سیاست میں حصہ لینے اور عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے اُن کی تخریبی سرگرمیوں کے لیے اسلام کے غلط استعمال کا مقابلہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے"۔

ماموند نے کہا کہ یہ حملہ نومبر میں ہونے والے آئندہ انتخابات سے قبل ان کی پارٹی کو غیر مستحکم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

2018 کے عام انتخابات سے پہلے بھی، داعش - کے نے کئی سیاسی ریلیوں اور سیاسی شخصیات کو نشانہ بنایا تھا۔ جولائی 2018 میں، بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک ریلی میں 140 سے زائد افراد مارے گئے تھے ۔

اتوار کو اردو زبان میں کی جانے والی ایک ٹوئٹ میں وزیراعظم شہباز شریف نے بم دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "سیاسی جماعتوں پر حملہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ دشمن پاکستان میں جمہوری نظام کی مخالفت کرتا ہے، ایسی حرکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی"۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے بھی ایک ٹویٹ میں اس حملے کی مذمت کی اور امریکی حکومت کے " دہشت گردی سے نمٹنے اور اپنے شہریوں کی حفاظت اور سیکورٹی کو یقینی بنانے میں پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرنے کے عزم" کا اعادہ کیا۔

خوفناک منظر

عبداللہ خان، جنہوں نے متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی، نے کہا کہ "خیمہ ایک طرف سے گر گیا تھا، [بچنے والے] جو جان بچانے کی شدت سے کوشش کر رہے تھے، پھنس گئے تھے۔"

"بے جان لاشوں کے ساتھ ساتھ پورے علاقے میں انسانی گوشت، اعضاء اور جسم کے اعضاء بکھرے ہوئے تھے اور ہر طرف انتہائی پریشانی تھی۔"

پارٹی کے ایک 24 سالہ حامی صبیح اللہ جس کا بازو دھماکے سے ٹوٹ گیا تھا، نے کہا کہ جس پیمانے پر لوگ زخمی ہوئے ہیں وہ انتہائی خوفناک ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ "میں نے اپنے آپ کو کسی ایسے شخص کے پاس پڑا ہوا پایا جس کے اپنے اعضاء کٹ چکے تھے۔ ہوا انسانی گوشت کی بو سے بھری ہوئی تھی۔"

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "یہ ایک خودکش حملہ تھا، جس میں حملہ آور نے سٹیج کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔"

اے ایف پی نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا کہ دھماکے کے وقت خیمے میں تقریباً 400 افراد موجود تھے اور ہنگامی عملہ کی متعدد ٹیمیں، جائے وقوعہ پر کام کر رہی تھیں۔

داعش- کے کے خلاف کریک ڈاؤن

اتوار کو ہونے والا خودکش بم دھماکا ظاہر کرتا ہے کہ، اگرچہ داعش- کے کو اُس کے خلاف اس وقت جاری کریک ڈاؤن کے دوران کافی نقصان پہنچا ہے، یہ گروہ اب بھی مہلک کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کا مقصد پاکستان میں سیاسی ریلیوں اور غیر مسلم اقلیتوں جیسے آسان اہداف کو نشانہ بنانا ہے۔

جون میں، کے پی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے محکمہ (سی ٹی ڈی) نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باجوڑ میں داعش- کے، کے ایک کمانڈر سبحان اللہ عرف عثمان کو ہلاک کر دیا تھا۔

سی ٹی ڈی کے ایک سینئر اہلکار امجد خان نے جون میں پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "سبحان اللہ، سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں سمیت دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں مطلوب تھا اور اس کے سر پر 2 ملین پاکستانی روپے (تقریباً 7,000 ڈالر) کا انعام رکھا گیا تھا۔"

جون میں بھی، پنجاب پولیس کی سی ٹی ڈی نے کہا تھا کہ اس نے عید الاضحی کے موقع پر داعش-کے سے منسلک ایک خاتون سمیت نو مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے دہشت گردی کی ایک بڑی سازش کو ناکام بنا دیا تھا۔

عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کمزور داعش-کے، اب مایوس ہو کر سیاسی ریلیوں کے ارکان اور کمزور اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

داعش- کے، نے جون میں پشاور میں دو الگ الگ حملوں میں سکھ اقلیتی برادری کے دو افراد کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

اپریل میں پشاور میں ایک سکھ شہری کو اس کی دکان میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ سال کوہاٹ اڈہ اور سربند کے قریب بھی سکھوں پر حملوں کی اطلاع ملی تھی۔

مارچ 2022 میں داعش- کے، نے پشاور میں ایک شیعہ مسجد پر خودکش حملہ کیا جس میں 64 سے زیادہ نمازی ہلاک ہو گئے تھے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500