سلامتی

پشاور بم حملے کی وجہ سے افغانستان سے داعش کے خطرہ سے متعلق خدشات

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

4 مارچ کو پشاور میں خودکش بم حملے کے ایک روز بعد ایک شعیہ مسجد کے قریب پولیس اہلکار پہرہ دے رہے ہیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ کے قریب سے ملنے والے دو کٹے ہوئے پاوں کی مدد سے بمبار کی شناخت کی۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

4 مارچ کو پشاور میں خودکش بم حملے کے ایک روز بعد ایک شعیہ مسجد کے قریب پولیس اہلکار پہرہ دے رہے ہیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ کے قریب سے ملنے والے دو کٹے ہوئے پاوں کی مدد سے بمبار کی شناخت کی۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

پشاور – پولیس نے بدھ (9 مارچ) کو کہا کہ "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) خودکش بمبار، جس نے گزشتہ ہفتے پشاور میں ایک شعیہ مسجد میں 64 افراد کو قتل کیا، ایک افغان تارکِ وطن تھا، جو حملہ کے لیے تربیت حاصل کرنے کی غرض سے وطن واپس لوٹا۔

حکام کے مطابق، 4 مارچ کو ہونے والے حملے کے بعد بیس ملزمان گرفتار کیے گئے اور حملہ کے تین "تسہیل کنندگان" راتوں رات ایک چھاپے میں گرفتار ہوئے۔

دھماکے کے دو روز بعد اتوار کو ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا،"اس مہلک دھماکے میں ملوث تینوں ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے۔"

ڈان کے مطابق، پشاور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر محمد اعجاز خان نے کہا، "ہم نے نیٹ ورک توڑ دیا ہے اور خود کش حملہ آور کے خاندان تک بھی پہنچ گئے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پولیس تفتیش کنندگان نے حملہ کی جائے وقوعہ سے جسم کے اعضا اور دیگر شواہد اکٹھے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا، "انہوں نے جائے وقوعہ سے پستول سے انگلیوں کے نشان اور گولیوں کے کھوکھے بھی اکٹھے کیے ہیں۔"

حکومتِ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ترجمان محمد علی سیف نے کہا کہ بمبار نے ہدف پر پہنچنے کے لیے جس رکشہ کا استعمال کیا وہ بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔

دہشتگردوں کی جنت

تنبیہات آتی رہی ہیں کہ اگست میں افغان حکومت کے سکوت کے بعد افغانستان عسکریت پسندوں کے لیے بھرتی کرنے کی ایک سرزمین اور کاروائی کی چوکی بن سکتا ہے۔

حکام نے عہد کیا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو دیگر ممالک پر حملے کرنے کے لیے استعمال کیے جانے کی اجازت نہ دیں گے، تاہم گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ (سیکیورٹی کاونسل) نے کہا کہ "حالیہ تاریخ میں دہشتگرد گروہوں کو کبھی اتنی آزادی نہیں رہی جتنی اب ہے۔"

دو سینئر پاکستانی پولیس عہدیداران نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمع کو پشاور میں ہونے والے دھماکوں کے ذمہ دار بمباروں نے افغانستان میں حملے کی تیاری کی۔

اس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، جس کی خراسان شاخ (داعش-کے) کئی برسوں سے پاکستان اور افغانستان، دونوں میں فعال ہے۔

حکام نے کہا کہ حملہ آور اپنی عمر کی 30 ویں دہائی میں ایک افغان شہری تھا جو کئی دہائیوں قبل اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گیا تھا۔

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "بمبار [واپس] افغانستان چلا گیا، وہاں تربیت حاصل کی اور اپنے اہلِ خانہ کو مطلع کیے بغیر واپس آ گیا۔"

انہوں نے مزید کہا، "دولتِ اسلامیہ-خراسان ہمارے لیے ایک شدید خطرہ بنتا جا رہا ہے؛ وہ افغانستان سے سرگرمیاں کر رہے ہیں، لیکن یہاں ان کے سلیپر سیل ہیں۔"

پاکستان ادارہ برائے علومِ امن (پی آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ افغانستان کے عسکریت پسندی کےلیے جنت بننے کے نظریہ سے متعلق بین الاقوامی برادری میں "کافی خدشہ" پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکام القاعدہ جیسے اتحادی گروہوں کو لگام ڈال سکتے ہیں، لیکن "وہ اس امر کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ وہ داعش-کے جیسے گروہوں سے متعلق بھی ویسا ہی کر سکیں گے جو ان کے قابو میں نہیں۔"

رانا نے کہا کہ افغانستان میں نئے قائدین سے متعلق "بہت سے سوالات ہیں۔"

گزشتہ افغان حکومت کےسکوت کے بعد سے اسلام آباد نے نئے حکام اور بین الاقوامی برادری کے مابین ایک کلیدی مفاہمت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سفارتی تعلقات کو آزماتے ہوئے افغانستان میں کمین گاہوں سے حملے کیے ہیں۔

رانا نے کہا کہ ممکن ہے کہ داعش-کے افغانستان میں حکام پر اسلام آباد کی جانب سے "دباو بڑھانے" کے لیے پاکستان میں حملے تیز تر کررہا ہو۔

بلوچستان میں داعش حملے

داعش نے جمعرات کو ضلع سبّی میں پارلیمانی فرنٹیئر کانسٹیبلری کے سات ارکان کی شہادت کا باعث بننے والے ایک خودکش دھماکے کی بھی ذمہ داری قبول کی، جو اس مقام سے 800 میٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے جہاں اسی روز قبل ازاں صدر عارف علوی نے ایک تقریب میں شرکت کی۔

سینیئر پولیس عہدیدار دوستین دشتی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ دھماکہ صدر کے اس علاقہ سے جانے کے قریباً 25 منٹ بعد ہوا۔"

بلوچستان میں انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار ہاشم غِلزئی نے اموات کی تعداد کی تصدیق کی۔

پاک فوج نے کہا کہ جمعرات کو صوبہ میں ایک غیر متعلقہ سیکیورٹی آپریشن میں سات عسکریت پسند مارے گئے۔

اس نے ایک بیان میں کہا، "علاوہ ازیں اسلحہ و گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ بھی بازیاب کیا گیا جو دہشتگردانہ کاروائیوں میں استعمال ہونا تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500