سلامتی

داعش کی نئی بھرتیوں کی کوششوں سے افغانستان میں خدشات

سلیمان

2 اپریل کی ایک ویڈیو پوسٹ میں افغانستان میں داعش ارکان نے نئے رہنما ابو حسن القریشی کی بیعت کی۔ [فائل]

2 اپریل کی ایک ویڈیو پوسٹ میں افغانستان میں داعش ارکان نے نئے رہنما ابو حسن القریشی کی بیعت کی۔ [فائل]

کابل – افغانستان میں حالیہ سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتِ حال کے دوران "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) کے حالیہ حملوں نے ان خدشات کو ابھارا ہے کہ یہ گروہ ملک میں اپنی بھرتی کی مہم کو پھیلا کر خطے کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ پیدا کر رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ اگست میں حملوں، جن میں سے اکثر داعش نے کیے، میں تقریباً 400 افراد جاںبحق ہوئے۔

ترکی سے تعلق رکھنے والے ایک عسکری تجزیہ کار اور پروان اور فارح صوبوں کے سابق گورنر عبدالبصیر سالنگی نے کہا، " داعش اب افغانستان کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن گیا ہے ، پہلے سے کہیں زیادہ"۔

انہوں نے کہا، "اگر خطے کے ہمسایہ ممالک اور ان سے بھی آگے تک داعش کی حمایت جاری رکھیں گے تو یہ گروہ اور بڑا خطرہ بن جائے گا اور اسے شکست دینا نہایت مشکل ہو جائے گا"۔

قندھار میں ایک شعیہ مسجد پر داعش خودکش بم حملے میں 41 افراد کے جانبحق اور متعدد کے زخمی ہونے کے ایک روز بعد، 16 اکتوبر کو قندھار میں ایک قبرستان میں جاںبحق ہونے والوں کی تدفین کے بعد لوگ ان کی قبروں پر مٹی ڈال رہے ہیں۔ [جاوید تنویر/اے ایف پی]

قندھار میں ایک شعیہ مسجد پر داعش خودکش بم حملے میں 41 افراد کے جانبحق اور متعدد کے زخمی ہونے کے ایک روز بعد، 16 اکتوبر کو قندھار میں ایک قبرستان میں جاںبحق ہونے والوں کی تدفین کے بعد لوگ ان کی قبروں پر مٹی ڈال رہے ہیں۔ [جاوید تنویر/اے ایف پی]

سالنگی نے کہا کہ افغانستان میں واضح موجودگی قائم کرنے اور شعیہ کو قتل کرنے کے علاوہ داعش وسط ایشیائی ممالک اور اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک میں بھی حملے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

داعش کی بڑھتی ہوئی بھرتیاں

داعش – کے نے 2 اپریل کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں دکھایا کیا کہ افغانستان میں نامعلوم مقام پر عسکریت پسندوں کے چھوٹے گروہ نئے عالمی رہنما ابو حسن الہاشمی القریشی کی بیعت کر رہے ہیں۔

القریشی شام میں ایک امریکی چھاپے کے دوران اپنے پیش رو ابو ابراہیم القریشی کے اپنے اہلِ خانہ سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لینے کے ایک ماہ سے کچھ زائد بعد داعش کے نئے رہنما نامزد ہوئے۔

یہ نئے رہنما مبینہ طور پر داعش کے بانی ابو بکر البغدادی جو خود بھی 2019 میں شام میں ایک امریکی چھاپے کے دوران دو بچوں کے ہمراہ ایک خود کش بم حملے میں ہلاک ہوئے، کے بڑے بھائی ہیں۔

سالنگی نے کہا، "اب متعدد غیر ملکی دہشتگرد گروہوں نے۔۔۔ داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ داعش نے اپنی بھرتیوں میں توسیع کر دی ہے، اور اس گروہ کی خراسان شاخ کنڑ، ننگرہار اور شمالی افغانستان کے کچھ حصوں سمیت متعدد صوبوں میں موجود ہے۔"

انہوں نے کہا، "اگر داعش اپنی بھرتیوں میں اضافہ کرتا ہے تو افغانستان کی سلامتی کو ایک بڑا خطرہ درپیش ہو گا اور اس گروہ کی خراسان شاخ ملک میں مضبوط تر ہو جائے گی۔"

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار فہیم چاکری نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے، "داعش نے اپنی بھرتیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس نے "کابل ہوائی اڈے اور کندوز اور قندھار میں دو مساجد سمیت متعدد دہشتگرد حملے کیے ہیں جن میں درجنوں شہری جاںبحق یا زخمی ہو گئے۔"

ہرات میں اس گروہ کا مہلک حملہ افغانستان میں داعش کی استعدادِ کار کے توسیع شدہ نیٹ ورک کی ایک اور مثال ہے۔

چاکری نے کہا، "بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت نے افغانستان میں داعش افواج کی بھرتیوں کے لیے راہ ہموار کر دی ہے۔ اگر یہ صورتِ حال جاری رہی تو ہم جلد ہی نمایاں تخریبی سرگرمیوں کا مشاہدہ کریں گے اور داعش افغانستان کو اپنی مستقل چھاؤنی بنا لے گا۔"

صوبہ پنجشیر کے ایک 24 سالہ مقامی، نور رحمٰن، جو اب کابل میں مقیم ہیں، نے کہا، "حالیہ صورتِ حال نے داعش کی بھرتیوں کے لیے حالات زیادہ موزوں بنا دیے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ غربت، بے روزگاری اور ملک میں سیاسی غیر یقینی وہ کلیدی محرکات ہیں جو افغانوں کو داعش میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

نور رحمٰن نے کہا کہ گزشتہ آٹھ ماہ سے "درجنوں داعش جنگجوؤں کو یا تو چھوڑ دیا گیا ہے یا وہ جیلوں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں، اور اس سے افغانستان میں یہ گروہ مستحکم ہوا ہے۔"

امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل کینیتھ "فرینک" مک کنزی نے 9 دسمبر کو کہا کہ اگست کے وسط میں افغان جیلوں سے متعدد داعش جنگجوؤں کی رہائی سے داعش کو "حیاتِ نو" ملی۔

’داعش دشمن ہے‘

کابل سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار سلیم پائیگیر نے کہا کہ افغانوں نے نہ کبھی کسی غیر ملکی کماندار کی قیادت کو تسلیم کیا اور نہ ہی اس کے تحت جنگ کی۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ، داعش اپنی افواج کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن سکتا ہے۔

پائیگیر نے کہا، "داعش ہمارے قبیلوں اور دین کا دشمن ہے۔ اس گروہ نے ہمیشہ شہریوں کو نشانہ بنایا اور یہ افغانستان کے استحکام، سلامتی اور خودمختاری کے لیے ایک شدید خطرہ ہے۔ لہٰذا افغانوں کو چاہیئے کہ وہ اس دہشتگرد گروہ سے دھوکہ نہ کھائیں اور ایسے دشمن کی بیعت نہ کریں۔"

کابل سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی تجزیہ کار عبدالشکور سالنگی نے کہا، "سلفیوں جیسے شدت پسند گروہ میں داعش کے لیے ہمدردیاں ہیں۔۔۔ اور یہ ناامیدی کی کیفیت میں غربت اور بے روزگاری کا سامنا کرنے والوں کے لیے فراہمیٴ معاش کے لیے مالی وسائل رکھتے ہیں۔"

سالنگی کو اس امر سے متعلق شبہات ہیں کہ داعش کسی صوبے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے؛ "تاہم، اس گروہ کا مقصد ایسا مادی اور نفسیاتی خطرہ بننا ہے جو افغانستان کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500