سلامتی

اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاء پر افواجِ پاکستان کا ہدف دہشت گرد گروہ ہیں

از ضیاء الرحمان

نومبر میں پولیس کراچی میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان/پاکستان فارورڈ]

نومبر میں پولیس کراچی میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- پاکستانی حکام ہمسایہ مملک افغانستان سے بین الاقوامی اتحادی افواج کے انخلاء پر سلامتی کو لاحق ممکنہ خطرات کو ٹالنے کی کوششوں کے جزو کے طور پر القاعدہ اور "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) کے مقامی ساتھیوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

نیٹو اور امریکی افواج نے یکم مئی سے باضابطہ طور پر افغانستان سے انخلاء شروع کر دیا تھا اور 11 ستمبر تک اس عمل کو مکمل کرنے کا عہد کیا ہے۔

انخلاء کے عمل میں معاونت کرنے اور پورے خطے میں دہشت گرد گروہوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے، امریکی فوج مشرقِ وسطیٰ میں اضافی دستے اور وسائل تعینات کر رہی ہے.

پاکستان میں، قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گرد گروہوں پر کریک ڈاؤن کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں جیسے کہ برصغیر میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس)، داعش کی خراسان شاخ (داعش-کے) اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)۔

داعش-خراسان کی جانب سے لال شہباز قلندر کے مزار پر بم دھماکے کی پہلی برسی کے موقع پر، فروری 2018 میں ایک رقاصہ اور فعالیت پسند، شیما کرمانی، مزار کے احاطے میں دھمال ڈالتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان/پاکستان فارورڈ]

داعش-خراسان کی جانب سے لال شہباز قلندر کے مزار پر بم دھماکے کی پہلی برسی کے موقع پر، فروری 2018 میں ایک رقاصہ اور فعالیت پسند، شیما کرمانی، مزار کے احاطے میں دھمال ڈالتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان/پاکستان فارورڈ]

2 مئی کو پولیس نے صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں داعش-خراسان کے ساتھ منسلک تین دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا۔

گرفتار شدگان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ صوبہ سندھ میں داعش کے نائب سربراہ، عبدالحفیظ پندرانی کے قریبی معاونین ہیں۔ پندرانی فروری 2018 میں صوبہ بلوچستان کے ضلع سبی میں ایک پولیس مقابلے میں، داعش سندھ کے سربراہ، مولوی عبداللہ بروہی کے ہمراہ مارا گیا تھا۔

محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سندھ نے 19 اپریل کو حیدرآباد کے قریب پانچ مشتبہ عسکریت پسندوں، بشمول دو مبینہ خودکش بمباروں کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا جو ٹی ٹی پی کے ساتھ وابستہ تھے۔

سندھ سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ عہدیدار، عمر شاہد حامد نے کہا کہ عسکریت پسند کراچی میں پولیس تربیتی مرکز پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور پہلے ہی جاسوسی کی کارروائیاں مکمل کر چکے تھے۔

حامد کے مطابق، گرفتار شدہ عسکریت پسندوں میں سے چند ایک کئی ہائی پروفائل حملوں میں ملوث تھے، بشمول 2019 میں لاہور میں داتا دربار پر خودکش بم دھماکہ اور 2018 میں سوات میں پاکستانی فوج کے ایک والی بال میچ پر خودکش بم دھماکہ۔

اُسی روز ایک الگ چھاپے میں، کراچی کی ضلعی پولیس نے ٹی ٹی پی کے دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا تھا جنہیں مبینہ طور پر افغانستان میں ہیڈکوارٹر سے ٹی ٹی پی کے قائدین کی جانب سے شہر میں تنظیم سازی کے لیے بھیجا گیا تھا۔

جنوری میں، سندھ کی سی ٹی ڈی نے کراچی میں انجینیئرنگ کے ایک طالب علم کو شام میں داعش کے ساتھ وابستہ عسکریت پسندوں کے خاندانوں کو پیسے بھیجنے کے الزامات پر گرفتار کیا تھا۔

گزشتہ نومبر میں، پنجاب کی سی ٹی ڈی نے مخبری کی بنیاد پر ایک مشترکہ کارروائی میں ضلع راجن پور میں اے کیو آئی ایس کے پانچ مشتبہ ارکان کو گرفتار کیا تھا اور ان کے قبضے سے خودکش جیکٹیں، ہینڈ گرنیڈ، اسلحہ اور گولیاں برآمد کی تھیں۔

سی ٹی ڈی کی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اے کیو آئی ایس کے ملزمان پنجاب کے جنوبی اضلاع میں اہم تنصیبات پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

افغان کارروائیاں

دوسری جانب، اے کیو آئی ایس اور داعش-خراسان کو افغانستان میں عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں وہاں بھاری نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔

طالبان کے روابط منقطع کرنے کے وعدے کے باوجود، طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں، خصوصاً القاعدہ، کے درمیان قریبی تعلقات کے جاری ہونے کا ثبوت بڑھتا جا رہا ہے۔

مارچ کے آخر میں، افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) کی افواج نے اے کیو آئی ایس کے ایک بڑے رہنماء دولت بیگ تاجکی، المعروف ابو محمد التاجکی، کو صوبہ پکتیکا کے ضلع گیان میں ایک کارروائی میں کئی افغان طالبان قائدین کے ہمراہ ہلاک کر دیا تھا۔

این ڈی ایس نے نومبر میں اے کیو آئی ایس کے رہنماء محمد حنیف کو بھی صوبہ فرح میں ہلاک کیا تھا، جس کا تعلق کراچی سے تھا۔

این ڈی ایس کے مطابق، حنیف عاصم عمر کا قریبی رفیق تھا، جس نے سنہ 2014 میں اس کے آغاز سے ہی اے کیو آئی ایس کی سربراہی کی تھی۔ صوبہ ہلمند کے ضلع موسیٰ قلعہ میں طالبان کی ایک عمارت پر ستمبر 2019 میں مارے جانے والے ایک چھاپے کے دوران عمر ہلاک ہو گیا تھا

این ڈی ایس کے مطابق، ابو محسن المصری، ایک مصری باشندہ جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ اے کیو آئی ایس کا نمبر دو قائد تھا، اکتوبر 2020 میں صوبہ غزنی میں ضلع اندار میں ہلاک ہوا تھا۔

گزشتہ برس اپریل میں، افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) نے داعش-خراسان کے سربراہ، ایک پاکستانی شہری اسلم فاروقی کو گرفتار کیا تھا.

ممالک کے مابین عسکریت پسند گروہوں کی نگرانی کرنے والے، اسلام آباد کے مقامی، حساس ادارے کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا، "اے کیو آئی ایس اور داعش-خراسان کے قائدین، خصوصاً عمر، حنیف، اور فاروق کی افغانستان میں ہلاکت اور گرفتاری نے ملک میں دہشت گرد تنظیموں کو کمزور کرنے میں پاکستانی حکام کی مدد بھی کی ہے۔"

ان کا کہنا تھا حتیٰ کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے نکل جانے کے بعد بھی، اے کیو آئی ایس اور داعش-خراسان خود کو پاکستان میں منوانے کی حیثیت نہیں رکھتیں۔

اے کیو آئی ایس اور داعش-خراسان کا قیام

القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے ستمبر 2014 میں اے کیو آئی ایس کو دہشت گرد تنظیم کی جنوب ایشیائی شاخ کے طور پر شروع کیا تھا۔

گروہ کے قیام کے بعد جلد ہی، اے کیو آئی ایس پاکستان میں فعال ہو گئی اور کئی مقامی عسکریت پسند تنظیمیں جن کی القاعدہ کے ساتھ نظریاتی وابستگی تھی، انہوں نے بھی اے کیو آئی ایس کے ساتھ اتحاد کرنے کا عہد کیا۔

اس اقدام کو جولائی 2014 میں داعش-خراسان کے اجراء کے ردِعمل کے طور پر دیکھا گیا۔

کراچی کے مقامی دفاعی تجزیہ کار، منیر احمد شاہ نے کہا، "القاعدہ کے زوال سے سب سے زیادہ مستفید داعش ہوئی تھی، اور خطے میں آخرالذکر کے بہت سے اتحادیوں نے اول الذکر کے ساتھ شمولیت اختیار کر لی۔"

ان کا کہنا تھا، "پاکستان اور افغانستان میں داعش کی آمد القاعدہ کو للکارنے کے لیے شروع ہوئی تھی کیونکہ آخرالذکر کے قائدین نے اول الذکر کے ساتھ شامل ہونے کے منصوبوں کا اعلان کرنا شروع کر دیا تھا۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوری دفاعی ردِعمل اور معاشرے کی جانب سے تنظیم کے نظریات کو مسترد کیے جانے کی وجہ سے داعش پاکستان میں دیرپا موجودگی قائم کرنے میں بڑی حد تک ناکام ہو گئی ہے

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تنظیم نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

کئی برسوں کے عرصے میں، داعش کے ساتھ وابستہ یا اس کے متاثر عسکریت پسندوں نے پاکستان میں خوفناک حملوں کا ایک سلسلہ انجام دیا جس میں اقلیتی گروہوں، دفاعی قوتوں اور دیگر کو ہدف بنایا گیا۔

لیکن پاکستان کا متنوع ثقافتی، مذہبی اور نسلی منظرنامہ ایسی پُرتشدد انتہاپسندی کے لیے نامہربان ثابت ہوا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500