صحت

ٹی ٹی پی کی طرف سے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد، مسلح افراد نے ویکسین لگانے والوں، پولیس کو نشانہ بنایا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

کراچی میں، 21 ستمبر کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران ایک ہیلتھ ورکر ایک بچے کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا رہا ہے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

کراچی میں، 21 ستمبر کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران ایک ہیلتھ ورکر ایک بچے کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا رہا ہے۔ [آصف حسن/اے ایف پی]

پشاور -- حکام نے کہا ہے کہ اتوار (12 دسمبر) کو مسلح افراد نے خیبر پختونخواہ (کے پی) میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کی حفاظت کرنے والے ایک پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ یہ دو دنوں میں ہونے والی ایسی دوسری ہلاکت ہے۔

ٹانک کے ضلعی پولیس چیف سجاد خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ "موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے ایک پولیس اہلکار پر فائرنگ کر دی جو شیخ اتر کے علاقے میں پولیو کے قطرے پلانے والی، دو خواتین پر مبنی ٹیم کی حفاظت کر رہا تھا، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔"

ایک مقامی پولیس اہلکار نور اسلم نے ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کے ریڈیو مشال کو بتایا کہ حملہ آور علاقے سے فرار ہو گئے اور "سرچ آپریشن جاری ہے"۔

کسی نے بھی اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، جو کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے ایک حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے ایک دن بعد ہوا ہے۔

ہفتے کے روز، موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے ضلع ٹانک میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والی ایک اور ٹیم جو کہ دو خواتین پر مشتمل تھی، کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی۔

ضلعی پولیس افسر سجاد خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ "مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے ایک پولیس اہلکار موقع پر ہی ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا۔"

ایک اور مقامی پولیس اہلکار کمال شاہ نے اس واقعہ کی تصدیق کی اور کہا کہ حملہ آور فرار ہو گئے۔

ٹی ٹی پی نے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو بتائی۔ یہ بات ان کے ترجمان محمد خراسانی کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیان میں بتائی گئی۔

عسکریت پسندوں نے جنگ بندی ختم کر دی

عسکریت پسندوں نے جمعہ کو، پاکستانی حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کر دی، انہوں نے حکام پر ایک ماہ کی جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا۔

ٹی ٹی پی کے رہنما مفتی نور ولی محسود کی طرف سے جمعہ کو دیر گئے جاری کردہ ایک آڈیو پیغام کے مطابق، پاکستان کی حکومت کے ساتھ تازہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ حکومت 2014 کے بعد سے پہلی بار گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے۔

اس فیصلے پر، دہشت گردی کے متاثرین اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کی طرف سے شدید تنقید ابھر کر سامنے آئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ماضی میں ہونے والے امن معاہدے، امن کو بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کی بجائے عسکریت پسند گروہ کو زیادہ حوصلہ افزائی اور تقویت ملی ہے۔

ٹی ٹی پی کے راہنما 2004،2005 ،2006، اور2009 میں ہونے والے معاہدوں پر قائم رہنے میں ناکام رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی --- ایک ایسی تحریک ہے جو افغانستان کے ان نئے راہنماؤں سے الگ ہے جن کی تاریخ سانجھی ہے --- نے 2007 میں اپنے آغاز کے بعد سے پاکستان کو بھیانک تشدد کے زمانے کا شکار کیا تھا۔

ٹی ٹی پر فوج کی طرف سے کیے جانے والے ایک کریک ڈاؤن کے سات سالوں کے بعد، اسلام آباد، اگست میں افغان حکومت کے خاتمے کے بعد سے، اب گروہ کی واپسی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستان میں قطرے پلانے والی ٹیموں کی نگرانی کرنے والے پولیس محافظین کو ماضی میں بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور ایسا اکثر ملک کے اندر جنم لینے والے عسکریت پسندوں کی طرف سے کیا گیا۔

اکتوبر میں، ٹی ٹی پی کے دو عسکریت پسند جو ایک موٹرسائیکل پر سوار تھے، نے ڈیرہ اسماعیل خان، کے پی میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

ستمبر میں، نامعلوم مسلح شخص نے کوہاٹ، کے پی میں قطرے پلانے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے ایک اہلکار کر دیا تھا۔

صرف پاکستان اور افغانستان ایسے ملک ہیں جہاں ابھی تک پولیو کی وباء موجود ہے تاہم اس بیماری کے خاتمے میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔

گلوبل پولیو اریڈیکیشن انیشیٹیو کے مطابق، 2020 میں طبی ماہرین کی جانب سے 84 کیسز دیکھنے کے بعد پاکستان میں اس سال صرف ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ افغانستان میں، 2020 میں 56 کیسز کے مقابلے اس سال اب تک چار جنگلی پولیو وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

لیکن پاکستان میں اس بیماری کے خاتمے کی کوششیں دائیں بازو کے بنیاد پرست مذہبی طبقے طرف سے پھیلائے گئے سازشی نظریات سے ٹکرا گئی ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ ویکسینیشن پروگرام مسلمانوں کو بانجھ کرنے کی مغربی سازش کا حصہ ہیں۔

ان بے بنیاد دعوؤں نے بہت سے والدین، خصوصی طور پر جن کے پاس کم تعلیم ہے، بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے سے انکار پر مجبور کر دیا ہے۔

طبی حکام کے مطابق، افغانستان میں جاری تشدد نے پولیو کے قطرے پلانے والوں کو، ان جان بچانے والے قطروں کو لاکھوں بچوں کو پلانے سے روکا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500