صحت

کے پی میں حفاظتی ٹیکوں سے انکار میں کمی، طالبان کے ختم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کی عکاس

اشفاق یوسف زئی

پشاور میں ایک ہیلتھ ورکر 13 اگست کو ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہا ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

پشاور میں ایک ہیلتھ ورکر 13 اگست کو ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہا ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کے قبائلی اضلاع میں پہلے سے زیادہ والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت دے رہے ہیں جو کہ علاقے میں طالبان کے کم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ کی عکاسی ہے۔

طالبان کے عسکریت پسند پولیو کے قطرے پلانے کی پہل کاریوںکو سوات، سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور کے پی کے دوسرے حصوں میں روکنے کے لیے بدنام تھے۔

تاہم، فوجی مہمات نے ان علاقوں سے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں مدد کی جس سے خاندانوں اور قطرے پلانے والی ٹیموں کو نقصان پہنچانے کی ان کی صلاحیت کا خاتمہ ہوا۔

حکام کا کہنا ہے کہ حال ہی میں ہونے والی ایک کامیاب قطرے پلانے کی مہم سیکورٹی کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کی عکاس ہے۔

ایک ہیلتھ ورکر، 14 اگست کو حفاظتی قطرے پلانے کے بعد، باجوڑ ڈسٹرکٹ میں ایک گھر پر نشان لگا رہا ہے۔ [بہ شکریہ اشفاق یوسف زئی]

ایک ہیلتھ ورکر، 14 اگست کو حفاظتی قطرے پلانے کے بعد، باجوڑ ڈسٹرکٹ میں ایک گھر پر نشان لگا رہا ہے۔ [بہ شکریہ اشفاق یوسف زئی]

ایک ہیلتھ ورکر، شمالی وزیرستان ڈسٹرکٹ میں تین روزہ مہم کے دوران، 15 اگست کو ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہا ہے۔ [بہ شکریہ اشفاق یوسف زئی]

ایک ہیلتھ ورکر، شمالی وزیرستان ڈسٹرکٹ میں تین روزہ مہم کے دوران، 15 اگست کو ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلا رہا ہے۔ [بہ شکریہ اشفاق یوسف زئی]

ڈاکٹر افتخار علی جو کہ قبائلی اضلاع کے پولیو ویکسینیشن اہلکار ہیں، نے کہا کہ "13 اگست کو شروع ہونے والی تین روزہ مہم کا نتیجہ انتہائی حوصلہ افزاء رہا ہے خصوصی طور پر قبائلی اضلاع میں جہاں شہریوں نے طالبان کے عسکریت پسندوں کا ویکسین مخالف پروپیگنڈا مسترد کر دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ اور سابقہ فاٹا میں بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد اگست میں 200,000 سے کم ہو کر 71,170 ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ "باجوڑ ڈسٹرکٹ میں، بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کی تعداد صفر تھی جو کہ جنوری میں انجام دی جانے والی مہم میں 3,035 تھی۔ تمام ہدف کردہ 233,153 بچوں کو قطرے پلا دیے گئے"۔

پاکستان کی وزارتِ صحت کے مطابق 2012 سے جب عسکریت پسندوں نے پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا، اب تک ملک میں حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام سے متعلقہ واقعات میں 47 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ڈان نے 14 ستمبر کو خبر دی تھی کہ ہلاک ہونے والوں میں قطرے پلانے والے 36 کارکن اور سیکورٹی کے 11 اہلکار تھے۔

کے پی میں، اسی دورانیے میں ایسے واقعات میں 25 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 18 قطرے پلانے والے کارکن اور 7 پولیس اہلکار شامل تھے۔

حفاظتی ٹیکوں تک رسائی میں اضافہ

کے پی میں 2019 میں ملک میں جنگلی پولیو وائرس ٹائپ ون (ڈبلیو پی وی ون) کے 147 میں سے 93 کیس اور گردشی ویکسین-ماخوذ پولیو وائرس (سی وی ڈی پی وی ٹو) کے 22 واقعات میں سے 16 واقعات ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

کے پی میں 2020 کے دوران ابھی تک ڈبلیو پی وی ون کے ملک بھر کے 70 واقعات میں سے 22 اور سی وی ڈی پی وی ٹو کے 60 واقعات میں سے 42 ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

اورکزئی ڈسٹرکٹ میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے ایک نگران جاوید شاہ نے کہا کہ کچھ پاکستانی شہری "بنیاد پرست گروہوں کے اس پروپیگنڈا کا نشانہ بن گئے جنہوں نے یہ غلط فہمی پیدا کی کہ ۔۔۔ اسلام میں حفاظتی ٹیکوں کی اجازت نہیں ہے اور جن بچوں کو یہ دیے جاتے ہیں وہ بانجھ اور نامرد بن جاتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "علاوہ ازیں، انہوں نے عام شہریوں کو حفاظتی ٹیکوں سے بچنے پر مجبور کیا"۔

عسکریت پسند گروہ کی پروپیگنڈا مہم کی طرف اب کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے، شاہ نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ اب چونکہ پولیو کے قطروں تک رسائی زیادہ ہو گئی ہے، زیادہ والدین اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

"قبائلی علاقوں میں طالبان کی غیر قانونی حکمرانی کے دوران، شہریوں کی اکثریت اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے لیے کے پی لے کر جاتی تھی مگر اب والدین اپنے بچوں کو گھروں کی دہلیز پر قطرے پلانے کے قابل ہو گئے ہیں"۔

کے پی کے شعبہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق، تازہ ترین قطرے پلانے کی مہم کامیاب ثابت ہوئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے 4.2 ملین بچوں کو قطرے پلائے گئے ہیں جو کہ کوریج کی 99.9 فیصد شرح ہے۔

دھمکیوں سے نہ ڈرنے والے

صوابی ڈسٹرکٹ میں، جہاں عسکریت پسندوں نے جنوری میں قطرے پلانے والی ٹیم کی دو خاتون ارکان کو ہلاک کر دیا تھا، طبی عملے نے اگست میں ہونے والی قطرے پلانے کی مہم میں دہشت گردوں کی دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے۔

صوابی کی ایک ہیلتھ ورکر نسیم بیگم نے کہا کہ "ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ دہشت گرد ہمارے بچوں کو صحت مند اور تعلیم یافتہ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں مگر ہم ایسا ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس لیے، ہم پولیس کی حفاظت میں ہر گھر گئے اور ہم نے تمام بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے"۔

چوبیس سالہ بیگم نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے ماضی میں اسکولوں کو تباہ کیا اور پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی راہ میں روڑے اٹکائے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ شہری ناخواندہ رہیں اور بیمار ہو جائیں تاکہ وہ اپنے مذموم پروپیگنڈا کو آگے بڑھا سکیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ان دھمکیوں سے ڈرتے نہیں ہیں اور ہم اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت جاری رکھیں گے"۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان، جو 2014 تک عسکریت پسندوں کا گڑھ رہا ہے، میں قطرے پلانے کی حالیہ مہم میں صرف 4,000 لوگوں کی طرف سے انکار کی خبر آئی ہے جو کہ جنوری میں اس کے مقابلے میں 14,000 تھی اور اس کی وجہ والدین کا تعاون اور فوج کی طرف سے ہیلتھ ورکرز کو فراہم کی جانے والی سیکورٹی ہے۔

ڈاکٹر محمد سلیمان جو کہ صوبہ میں کام کرتے ہیں، نے کہا کہ "2013 میں، شمالی وزیرستان میں کالعدم طالبان کی طرف سے جو وہاں حکومت کر رہے تھے، لگائی گئی پابندی کے باعث پولیو کے 170 واقعات ہوئے تھے"۔

سلیمان نے کہا کہ "مگر اب وہاں پر دو واقعات سامنے آئے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے سال کوئی بھی متاثرہ بچہ نہیں ہو گا"۔

انہوں نے ماضی میں پولیو کی مہمات کو روکنے کا الزام عسکریت پسندوں پر لگایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ "شہریوں کو عسکریت پسندوں کی طرف سے دھمکیاں ملی تھیں اور والدین نے انتقام کے خوف کے باعث بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔ حالیہ ترین مہم میں، والدین نے اپنے بچوں کو خوشی خوشی پولیو کے قطرے (او وی پی) پلائے"۔

طبی عملے کے لیے حفاظت

انہوں نے کہا کہ اس کامیابی کا سہرا زیادہ تر فوج ، جس نے قبائلی علاقوں سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا اور بہادر طبی عملے کے سر جاتا ہے جنہوں نے دھمکیوں کے باوجود گھر گھر جا کر قطرے پلانے کی مہم سر انجام دی۔

پشاور کے سابقہ ہیلتھ ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر محمد سہیل نے کہا کہ یہ بات بہت مایوسی کا باعث ہے کہ پاکستان اور افغانستان دنیا میں وہ واحد ملک رہ گئے ہیں جہاں پولیو کا مقامی مرض موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ "پولیو واحد بیماری ہے جس کو حفاظتی قطروں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ہمیں ہر ایک بچے کو قطرے پلانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی قوتِ مدافعت کو پولیو وائرس کے خلاف بڑھایا جا سکے اور اس بیماری کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے"۔

کے پی پولیس نے اگست میں اس وقت کام کرنے والی قطرے پلانے والے 22,000 کارکنوں کی حفاظت کے لیے 25,000 اہلکاروں کو تعینات کیا تھا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے پولیو افسر ڈاکٹر ظہیر احمد نے کہا کہ "تین روزہ مہم کے دوران، تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جس سے مہم کامیابی سے انجام پائی"۔

جنوبی وزیرستان کے اسکول ٹیچر شریف احمد نے کہا کہ اس کے دو بچے پولیو کے باعث معذور ہو چکے ہیں کیونکہ وہ انہیں قطرے پلانے میں ناکام رہا تھا۔ اب ہر قطرے پلانے کی مہم کے دوران، وہ اپنے چھوٹے بچے کو خوشی خوشی قطرے پلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان نے پولیو کے قطرے پلانے کو سختی سے روک رکھا تھا اور ہم 2009 سے 2014 تک اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلا سکے تھے۔ میں اب عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کے ان کے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگیں"۔

مہمند ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے عالم مولانا مصطفی نے کہا کہ طالبان نے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے مقامی افراد کو گمراہ کیا تاکہ انہیں اپنے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے سے روکا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان جاہل ہیں: اسلام بچوں کو بیماریوں سے بچانے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یہ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ بیماریوں کے خلاف بچوں کی حفاظت کریں"۔

مصطفی نے کہا کہ "میں عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حفاظتی قطروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا پر توجہ نہ دیں اور اپنے بچوں کو پولیو کے خلاف قطرے پلائیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500