دہشتگردی

متاثرین کے ورثاء، کارکنان کی جانب سے پاکستانی حکومت کے ٹی ٹی پی کو عام معافی دینے کے ارادے کی مخالفت

از زرک خان

دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں ٹی ٹی پی کے قتل عام میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء نے 14 اکتوبر کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر دہشت گرد گروہ کے لیے عام معافی کے خلاف احتجاج کیا۔ [زرک خان]

دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) میں ٹی ٹی پی کے قتل عام میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء نے 14 اکتوبر کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر دہشت گرد گروہ کے لیے عام معافی کے خلاف احتجاج کیا۔ [زرک خان]

اسلام آباد-دہشت گردی کے متاثرین اور سول سوسائٹی کے کارکن تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کی حالیہ حکومتی پیشکش کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی نے پاکستانی دفاعی اداروں اور عام شہریوں دونوں پر سینکڑوں حملے کیے ہیں، بشمول دسمبر 2014 میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر حملہ جس میں 145 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جس میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔

پاکستان، امریکہ اوراقوام متحدہ ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں.

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے لیے عام معافی کی تجویز پیش کیے جانے کے بعد، اے پی ایس میں ہونے قتل عام کے متاثرین کے رشتے داروں نے 14 اکتوبر کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔

سفید کفن میں ملبوس، پاکستانی بچے اور اساتذہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کے خلاف 19 دسمبر 2014 کو لاہور میں مظاہرہ کر رہے ہیں، جس میں 145 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

سفید کفن میں ملبوس، پاکستانی بچے اور اساتذہ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کے خلاف 19 دسمبر 2014 کو لاہور میں مظاہرہ کر رہے ہیں، جس میں 145 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ [عارف علی/اے ایف پی]

1 اکتوبر کو ایک ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے خان نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ٹی ٹی پی کے کچھ دھڑوں سے ہتھیار ڈالنے اور انہیں ملک کے عام شہری بننے پر آمادہ کرنے کی ایک کوشش کے جزو کے طور پر بات چیت کر رہی ہے۔

دہشت گردی کے متاثرین کے ساتھ دھوکہ

اے پی ایس میں جاں بحق ہونے والے 12 سالہ طالب علم کے رشتے دار، فیصل علی نے کہا، "ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں سے بات کرنا دہشت گردی سے ہلاک ہونے والے ہزاروں بے گناہوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔"

علی نے کہا کہ ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش کر کے، حکومت نے عسکریت پسندوں کو تھپکی دی ہے، جو ابھی بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔

ایک عیسائی سول سوسائٹی کے کارکن، فتح جوزف، جنہوں نے ستمبر 2013 میں پشاور میں آل سینٹس چرچ پر ایک خودکش بم دھماکے میں دو رشتہ داروں کو کھو دیا تھا، نے کہا کہ ان کی برادری کے افراد اب بھی اپنے پیاروں کے نقصان پر غمزدہ ہیں۔

ٹی ٹی پی نے بم دھماکے، جس میں 104 افراد ہلاک اور 142 زخمی ہوئے تھے، کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

جوزف نے کہا، "ہزاروں بے گناہ لوگوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کے حکومتی ارادے [متاثرین کے] خاندانوں کو مشتعل کر دیں گے۔"

سنہ 2015-2014 میں پاکستان بھر میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں پر کریک ڈاؤن کے بعد، اس گروپ نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں پڑوسی افغان صوبوں میں منتقل کر دی تھیں۔

وہاں، انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبے بنائے اور سرحد پار سے حملے شروع کر دیئے، جس سے پاکستانی اور افغان حکومتوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی۔

تاہم، افغان فوج نے اتحادی افواج کے ساتھ مل کر افغانستان میں زمینی کارروائیوں اور فضائی حملوں میں ٹی ٹی پی کے متعدد عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا یا گرفتار کر لیا ، جس سے دہشت گرد تنظیم مزید کمزور ہو گئی۔

ہلاکتوں اور اندرونی اختلافات نے ٹی ٹی پی کو 2020 کے اوائل تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیا، لیکن مایوس دھڑوں کے حالیہ دوبارہ اتحاد اور افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے نے اس گروپ کو ایک نئی زندگی دے دی ہے۔

حالیہ مہینوں میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے سرحدی اضلاع میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں -- جو افواجِ پاکستان کے سنہ 2014 میں آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے تک ٹی ٹی پی کے سابقہ گڑھ ہوا کرتے تھے۔

دہشت گردوں کو تھپکی

خان کے انٹرویو سے پہلے، ستمبر میں صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دونوں نے علیحدہ علیحدہ تجویز دی تھی کہ اگر ٹی ٹی پی کے ارکان ہتھیار ڈالنے اور آئین کی پاسداری کرنے پر راضی ہو جائیں تو حکومت انہیں معاف کر سکتی ہے۔

ان کے بیانات کے بعد، 17 ستمبر کو ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں کسی بھی ممکنہ عام معافی کو مسترد کر دیا تھا تاوقتیکہ حکومت ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنے پر راضی ہو جائے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں کہا، "معافی عام طور پر ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، لیکن ہمیں اپنی جدوجہد پر بہت فخر ہے۔"

مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ماضی کے امن معاہدے امن کی بحالی میں ناکام رہے ہیں اور اس کی بجائے عسکریت پسند گروہ کو حوصلہ ملا ہے اور وہ مضبوط ہوئے ہیں۔

ٹی ٹی پی رہنماء 2004، 2005، 2006 اور 2009 میں طے پانے والے معاہدوں کو اپنی طرف سے نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔

پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن مونا نصیر نے 19 اکتوبر کو دی نیوز انٹرنیشنل میں لکھا کہ ماضی کے امن مذاکرات میں، پاکستانی حکام نے "اپنی رٹ ٹی ٹی پی ہاتھ تھما دی تھی اور بالآخر اسے بعد میں فوجی کارروائیوں کے ذریعے بحال کرنا پڑا، جس سے بھاری انسانی اور معاشی نقصانات اٹھائے گئے۔"

انہوں نے کہا، "سفاک قاتلوں، جو پہلے ہی جنگ سے مستفید ہو چکے ہیں، انہیں بات چیت کا استحقاق دینا ناصرف اس حکومت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے گا بلکہ اس کا مطلب ٹی ٹی پی کو تسلیم کرنا بھی ہو گا، جو اکثر اپنے افعال کو ایک خاص حد تک قانونی حیثیت دیتے ہیں۔"

کراچی میں انسداد دہشت گردی پولیس کے ایک عہدیدار نے کہا، "افغانستان میں [افغان] طالبان کے قبضے نے بلاشبہ ٹی ٹی پی کا حوصلہ بڑھایا ہے اور گروہ کی طاقت میں اضافہ کیا۔"

اہلکار کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں، ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش کر کے، حکومت نے ناصرف دہشت گرد گروہ کو تھپکی دی ہے بلکہ اسے تسلیم بھی کر لیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500