دہشتگردی

مسلح افراد نے پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن گل ظفر خان، 15 دسمبر کو باجوڑ میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے افتتاح کے موقع پر ایک بچے کو قطرے پلا رہے ہیں۔ [حنیف اللہ]

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن گل ظفر خان، 15 دسمبر کو باجوڑ میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے افتتاح کے موقع پر ایک بچے کو قطرے پلا رہے ہیں۔ [حنیف اللہ]

دیر -- مسلح افراد نے، بدھ (18 دسمبر) کو خیبر پختونخواہ (کے پی) کی لوئر دیر ڈسٹرکٹ میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کی سیکورٹی ٹیم پر حملہ کر کے کم از کم دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔

یہ اہلکار ملک بھر میں جاری پولیو مخالف مہمکا حصہ تھے جس کا آغاز اس ہفتہ میں کیا گیا تھا اور اس کا مقصد پاکستان میں لاکھوں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانا ہے جو کہ ان دو واحد ملکوں میں سے ایک ہے جہاں ابھی اس معذور کر دینے والی بیماری کی وباء موجود ہے۔ دوسرا ملک اس کا ہمسایہ افغانستان ہے۔

پولیس اہلکار عارف شہباز نے کہا کہ موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے کے پی کے علاقے لال قلعہ، جو کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے، میں اس وقت یہ حملہ کیا جب پولیس اہلکار پولیو کے قطرے پلانے والوں کے ساتھ باہر جانے سے پہلے ایک طبی مرکز میں اکٹھے ہو رہے تھے۔

شہباز نے کہا کہ "قطرے پلانے والوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا"۔ ایک اور پولیس اہلکار نے اس واقعہ اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی تصدیق کی ہے۔

پولیو کے خلاف جنگ میں رجعت

یہ حملہ پاکستان کی طویل عرصے سے اس بیماری کے خلاف جنگ کے دوران ایک مایوس کن سال میں پیش آیا ہے جس میں 2019 کے دوران ابھی تک 104واقعات کی اطلاع ملی ہے۔

گزشتہ سال صرف بارہ واقعات کی اطلاع ملی تھی۔

کسی نے بھی فوری طور پر ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے مگر پاکستانی طالبان اور دوسرے عسکریت پسندوں نے ماضی میں پولیو کے قطرے پلانے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔

پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہمات کو سالوں سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بہت سے لوگ غلط معلومات اور سازش کے نظریاتکے باعث اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔

جیسے جیسے پاکستان اپنے علاقے سے پولیو کا خاتمہ کرنے کے حدف تک پہنچ رہا ہے، حفاظتی ٹیکوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عالمی مہم کے باعث ایک نئی مشکل سامنے آئی ہے۔

اس نئی بات نے دنیا بھر میں حمایتی پیدا کیے ہیں جس کو بے بنیاد طبی دعووں سے بھڑکایا گیا اور جنہیں سوشل میڈیا پر بھی پھیلایا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ ماضی میں ختم ہو جانے والی انتہائی وبائی بیماریوں کے واپس آنے کی صورت میں نکلا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جب کہ دنیا اس وقت کرونا کا شکار ہے پوری دنیا میں افراتفری کا عالم ہے بجائے اس کے کہ یہی پیسہ کرونا سے بچائو پر خرچ کیا جاتا تو کیا بھتر نھیں تھا جس بیماری (پولیو) کے پورے ملک میں دوچار مریض ہیں اس پر تو اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں اور جو مرض (کرونا) وبائی صورت اختیار کر رہی ہے پوری دنیا کو چیلنج کر رہا ہے اس کے لئے اربوں روپے خرچ کیوں نھیں کیے جاتے کیا یہ بات پولیو مہم کو مشکوک نھیں بناتے؟؟ ہمارے ملک میں غربت کے لکیر سے بھی نیچی کی تعداد لاکھوں شاید کروڑوں میں ہیں جو ایک وقت کا اچھا کھانا نھیں خرید سکتے وہ کیا ماسک، اور دستانے وغیرہ خرید سکیں گے ہرگز نھیں تو کیا انکے لئے ماسک، دستانے اور ایمرجنسی ٹریٹ مینٹ کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے جواب ہوگا نھیں تو بتائیے کیا اس کو عقل مندی کہتے ہیں کہ وبائی مرض جو کہ دن بدن خطرناک صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے اس کو سائیڈ میں کرکے ہم اس مرض کا علاج کرتے پہریں جس مرض کے مریضوں کی تعداد ایک فیصد بھی نھیں ہے

جواب