سلامتی

شمالی وزیرستان میں پولیو ٹیم کی حفاظت کرنے والے سپاہی کو ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے قتل کر دیا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

حفاظتی قطرے پلانے کی مہم کے دوران 22 مئی کو پشاور میں ایک ہیلتھ ورکر پولیس افسر کی زیرِ حفاظت، ایک بچے کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا رہا ہے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

حفاظتی قطرے پلانے کی مہم کے دوران 22 مئی کو پشاور میں ایک ہیلتھ ورکر پولیس افسر کی زیرِ حفاظت، ایک بچے کو پولیو ویکسین کے قطرے پلا رہا ہے۔ [عبدالمجید/اے ایف پی]

اسلام آباد -- ملک کی فوج نے کہا ہے کہ ایک پاکستانی فوجی، بدھ (13 مئی) کو اس وقت مارا گیا جب عسکریت پسندوں نے پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم پر فائرنگ کی۔ تازہ ترین حملے کی ذمہ داری تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں میں، دہشت گردوں کی جانب سے قطرے پلانے والی ٹیموں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ وہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں سینکڑوں جانیں لے چکے ہیں۔

فوج نے شمالی وزیرستان، صوبہ پختونخواہ (کے پی) جو کہ افغانستان کی سرحد سے متصل ہے، میں حملے کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ "دہشت گردوں نے پولیو ٹیم کے ارکان پر فائرنگ کر کے جاری پولیو مہم کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔"

اُس نے مزید کہا کہ ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت کے لیے تعینات ایک سپاہی فائرنگ کے تبادلے کے دوران مارا گیا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر کے مطابق، علاقے کے ایک پولیس افسر اسلم ریاض نے کہا کہ فائرنگ کا یہ واقعہ حکومت کی جانب سے پولیو کے خاتمے کی تازہ ترین مہم شروع کرنے کے چند دن بعد ہوا ہے۔

ٹی ٹی پی، جو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف مہم چلا رہی ہے، نے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

پاکستان اور افغانستان صرف ایسے دو ممالک ہیں جہاں جنگلی پولیو وائرس اب بھی علاقائی مرض ہے اگرچہ ملاوی اور موزمبیق میں بھی 2022 میں درآمد شدہ جنگلی پولیو کے واقعات کا پتہ چلا تھا۔

گھات لگا کر پولیس پر حملے

پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو پاکستان کے مغربی علاقوں میں پولیس کی طرف سے حفاظت فراہم کی جاتی ہے اور ٹی ٹی پی نے ان افسروں پر گھات لگا کر حملہ کرنے کو اپنی عادت بنا لی ہے جو ان دور دراز پرامن علاقوں میں جاتے ہیں۔

گزشتہ سال 30 نومبر کو، ٹی ٹی پی کے ایک خودکش بمبار نے کوئٹہ، بلوچستان میں پولیس کے ایک ٹرک کو نشانہ بنایا، جس میں تین افراد ہلاک اور 23 افراد زخمی ہوئے تھے۔

سینیئر پولیس اہلکار اظہر مہیسر نے اُس وقت اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اس دھماکے میں، شہر میں پولیو کے قطرے پلانے والے حفاظتی دستے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ہلاک ہونے والوں میں "ایک پولیس اہلکار، ایک خاتون اور ایک بچہ شامل ہیں"۔

اس سے قبل نومبر میں، ٹی ٹی پی کے ہاتھوں چھ پولیس اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب وہ افغان سرحد سے 100 کلومیٹر دور، کے پی کے گاؤں شہاب خیل میں گشت کر رہے تھے۔

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کے مطابق فروری میں، ٹی ٹی پی کے ایک خودکش اسکواڈ نے کراچی پولیس آفس (کے پی او) کمپاؤنڈ پر حملہ کیا، جس میں چار افراد ہلاک اور 19 زخمی ہوئے۔

تین میں سے ایک دہشت گرد نے، عمارت کی چوتھی منزل پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جب کہ دو دیگر کو چھت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ 17 فروری کے حملے کے بعد، سندھ کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی)، وفاقی انٹیلی جنس اور دیگر ایجنسیوں نے اس کے پیچھے موجود نیٹ ورک کا سراغ لگانے اور اسے توڑنے کے لیے ایک مشترکہ ٹیم تشکیل دی۔

پولیس نے 13 مارچ کو کہا کہ انہوں نے حملے کے دو "منصوبہ سازوں" کو ہلاک کیا اور ٹی ٹی پی سے وابستہ دو دیگر مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔

سی ٹی ڈی کی 13 مئی کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں حالیہ گرفتاریوں اور ہائی پروفائل عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کے نتیجے میں صوبہ کے پی میں دہشت گردی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

کے پی سی ٹی ڈی نے مشاہدہ کیا کہ سال کے پچھلے تین مہینوں کے مقابلے میں اپریل میں صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں 11.9 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500