دہشتگردی

امریکہ کی جانب سے افغانستان کو لاحق داعش کے 'زبردست' خطرے کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کا عزم

از سلام ٹائمز اور اے ایف پی

افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کی فورسز مارچ کے مہینے میں صوبہ ننگرہار میں ایک کارروائی کے بعد عسکریت پسندوں کو لے کر جاتے ہوئے۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کی فورسز مارچ کے مہینے میں صوبہ ننگرہار میں ایک کارروائی کے بعد عسکریت پسندوں کو لے کر جاتے ہوئے۔ [نوراللہ شیرزادہ/اے ایف پی]

کابل -- منگل (18 مئی) کے روز کابل میں واشنگٹن کے چوٹی کے سفارتکار نے کہا کہ "دولت اسلامیہ عراق و شام" (داعش) افغانستان میں مسلسل ایک "زبردست" خطرہ ہے اور امریکہ افغان حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی معاونت کرنا جاری رکھے گا۔

امریکی قائم مقام سفیر روز ولسن نے خاص طور پر طالبان کو ملک بھر میں تشدد میں اضافہ کرنے پر موردِ الزام ٹھہرایا، ان پر امن مذاکرات میں ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے، جبکہ امریکی اور نیٹو افواج اپنا انخلاء جاری رکھے ہوئے ہیں۔

سفارت خانے میں ایک انٹرویو میں انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "یہاں داعش ابھی بھی ایک زبردست قوت ہے -- جو کہ ان بہت ساری وجوہات میں سے ایک ہے کہ ہم افغان حکام کو تحفظ اور انسدادِ دہشت گردی معاونت فراہم کرنا کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں"۔

ولسن نے داعش کو 8 مئی کو کابل میں سید الشہداء گرلز سکول کے باہر بم دھماکے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جس میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے، جن میں سے بیشتر طالبات تھیں، اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ سکول دشتِ بارچی میں واقع ہے، جو مغربی کابل کا ایک نواحی علاقہ ہے جس میں بیشتر آبادی شیعہ ہزارہ کی ہے جسے داعش بارہا دہشت گردی کا نشانہ بنا چکی ہے۔

افغانستان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر روز ولسن 18 مئی کو کابل میں امریکی سفارت خانے میں اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

افغانستان میں امریکہ کے قائم مقام سفیر روز ولسن 18 مئی کو کابل میں امریکی سفارت خانے میں اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

ولسن نے داعش پر صوبہ کابل کے ضلع شکردرہ میں ایک مسجد کے اندر 14 مئی کو مجالس کے دوران بم دھماکے کا الزام بھی عائد کیا۔ کابل پولیس کے ایک ترجمان، فردوس فرامراز کے مطابق، اس میں 12 افراد، بشمول امام مسجد، جاں بحق اور دیگر 15 زخمی ہوئے تھے۔

کسی بھی جماعت نے سکول پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، البتہ مسجد میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

داعش کے مظالم کی طویل فہرست

اگرچہ سنہ 2019 میں صوبہ ننگرہار میں افغان افواج نے ایک جنگجو قوت کے طور پر داعش کو بڑی حد تک کچل دیا تھا، دہشت گرد گروہ ابھی بھی عام شہریوں کو ذبح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

داعش نے افغانستان میں بہت ظلم ڈھائے ہیں جس کے لیے اس نے ذمہ داری قبول کی ہے، حکام ابھی بھی دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں کو اس گروہ سے منسوب کرتے ہیں۔

گزشتہ نومبر میں داعش کے مسلح افراد نے کابل یونیورسٹی میں کم از کم 22 افغانوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ گزشتہ اکتوبر میں نواحی علاقے دشتِ بارچی میں داعش کے ایک خودکش بمبار نے قصرِ دانش تعلیمی مرکز میں کم از کم 24 افغانوں کو ہلاک کر دیا تھا

12 مئی 2020 کو کابل میں، فوجیوں کے بھیس میں مسلح افراد نے کم از کم 14 افراد کو ہلاک کر دیا تھا -- بشمول نوزائیدہ بچے، مائیں اور نرسیں۔ افغان حکومت نے طالبان پر الزام عائد کیا تھا، جبکہ امریکی حکومت نے داعش کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ کسی بھی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

ستمبر 2018 میں، داعش کے ایک خودکش بمبار اور ایک کار میں نصب بم نے دشتِ بارچی میں میوند سپورٹس کلب میں 20 سے زائد افغانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

طالبان کی تردیدوں -- اور داعش کے ذمہ داری قبول کرنے کے دعووں -- کے باوجود افغان حکومت معمولاً اول الذکر کو عام شہریوں پر حملوں کے لیے موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔

کابل میں طالبان کی تردید اور داعش کے ذمہ داری قبول کرنے کے کثرت سے وقوع پذیر ہونے والے اتصال پر کابل میں شکوک بڑھ رہے ہیں۔ فروری میں، نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے طالبان کے ساتھ منسلک حقانی نیٹ ورک اور داعش کے ارکان پر مشتمل ایک دہشت گرد سیل کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا.

افغان خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ حالیہ گرفتاریاں اس ثبوت کے حجم میں اضافہ کرتی ہیں کہ داعش اور حقانی نیٹ ورک مشترکہ طور پر افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔

افغانستان میں داعش پہلی بار سنہ 2014 میں اس وقت ظاہر ہوئی تھی جب نیٹو کے جنگی دستے ملک سے نکل گئے تھے اور ذمہ داریاں داخلی دفاعی قوتوں کے سپرد کر دی گئی تھیں۔

ولسن کا کہنا تھا، "سکول میں ہونے والا بم دھماکہ اور مسجد میں ہونے والا بم دھماکہ جو کچھ روز بعد ہوا تھا بہت واضح طور پر نام نہاد 'دولتِ اسلامیہ' کا کارنامہ لگتا ہے"، ان کا مزید کہنا تھا "القاعدہ کی باقیات" بھی ابھی تک ملک میں فعال ہیں۔

'بلاجواز' تشدد

ان کا کہنا تھا، "یہ کسی کو بھی چھوٹ دینے والی بات نہیں ہے -- یقیناً طالبان کو ان پرتشدد کارروائیوں پر چھوٹ دینے کے لیے نہیں جن میں وہ براہِ راست ملوث ہیں، یا اس قسم کے دہشت گردی اور تشدد کے ماحولی نظام کے لیے جس میں وہ بہت گہرائی، گہرائی، گہرائی کے ساتھ شریکِ جرم ہیں"۔

امریکی اور نیٹو افواج کے یکم مئی سے فوجوں کے حتمی انخلاء کے شروع کرنے اور 11 ستمبر تک مکمل کرنے کے ساتھ، فساد میں اضافہ ہو گیا ہے -- جس میں طالبان اور افغان حکومت کی افواج کے درمیان بار بار جھڑپیں ہو رہی ہیں۔

ولسن نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں طالبان نے سرکاری افواج اور عام شہریوں کے خلاف "کافی زیادہ" حملے شروع کر دیئے ہیں جن میں "انہیں ہدف بنایا جاتا ہے۔۔۔ مارکیٹوں میں اور ملک بھر میں ہر شہر اور قصبے میں۔"

ان کا کہنا تھا، "اس بارے میں ہر کوئی واضح اور ایماندار ہو سکتا ہے۔"

ولسن کا کہنا تھا کہ پرتشدد کارروائیاں "بلاجواز" تھیں اس بناء پر کہ طالبان کابل کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل تھے -- حتیٰ کہ مہینوں تک ڈیڈلاک رہنے کے باوجود بھی۔

انہوں نے کہا، "ہمیں طالبان کے طرزِ عمل اور افغانوں کے خلاف بہت بلند اور حقیقتاً بلاجواز سطح کے فساد کے جاری رہنے پر گہری مایوسی ہوئی ہے۔"

"اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔۔۔ خصوصاً اگر آپ سیاسی عمل میں مشغول ہیں۔"

'ہم کہیں نہیں جا رہے'

ولسن، جو جنوری 2020 میں کابل پہنچے تھے، نے کہا کہ واشنگٹن ابھی بھی پُرامن نتیجے کے لیے پُرامید ہے۔

انہوں نے کہا، "اب ہم جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس پر اعتماد وہ سیاسی استحکام لائے گا جو جنگ بندی اور یہاں ہونے والی لڑائی کے مستقل خاتمے پر منتج ہو گا۔"

گزشتہ برس طالبان اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے معاہدے جس نے امریکی افواج کے نکلنے کی راہ ہموار کی تھی، کے بعد کابل اور باغیوں کے درمیان مذاکرات ستمبر میں قطر میں شروع ہوئے تھے۔

لیکن ابھی تک کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا، اور طالبان ڈگمگاتے ہوئے مذاکرات کو فوری طور پر شروع کرنے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے تجویز کردہ ترکی میں ایک الگ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرنے میں مذبذب نظر آتے ہیں۔

ولسن نے کہا حتیٰ کہ اگر امریکی انخلاء جاری بھی رہتا ہے، تو افغانستان میں واشنگٹن کی شمولیت جاری رہے گی۔

ان کا کہنا تھا، "واضح طور پر، ملک کو آئندہ مہینوں اور آئندہ برسوں میں کچھ سخت مسائل کا سامنا ہے۔۔۔ [لیکن] ہم حفاظتی تعاون جاری رکھنے کے اپنے وعدے پر قائم رہے ہیں۔"

"ہم کہیں نہیں جا رہے۔ ہم یہیں ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500