کابل – صدارتی محل نے بیان دیا کہ صدر اشرف غنی نے پیر (10 مئی) کو افغان افواج کو حکم دیا ہے کہ رواں ہفتے عیدالفطر کی تعطیلات کے دوران طالبان کی جانب سے تین روزہ جنگ بندی کے جواب میں اسی قدر جنگ بندی کی جائے۔
غنی نے افغان سیکیورٹی فورسز سے عید کے تیسرے روز تک "جنگ بندی کرنے" کا کہا، جس کا اعلان قبل ازیں پیر کے روز طالبان نے کیا تھا۔
انہوں نے جنگ کے خاتمہ کے لیے شورشیوں پر ایک مستقل جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لیے بھی زور دیا۔
محل نے ایک بیان میں کہا، "صدر اسلامی جمہوریہٴ افغانستان اور مسلح افواج کے کمانڈران چیف نے افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کو جنگ بندی کرنے کی ہدایات دی ہیں۔"
اس میں کہا گیا، "نہ صرف عید کے دنوں میں بلکہ کسی بھی روز تشدد کا سہارا لینے، شہریوں کو قتل کرنے، بنیادی ڈھانچے اور عوامی مقامات کو تباہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔"
مزید کہا گیا، "اب جبکہ بین الاقوامی افواج افغانستان سے انخلاء کر رہی ہیں اور دنیائے اسلام کے دینی حکام و علماء افغانستان میں جنگ کو دینی تعلیمات کے منافی خیال کرتے ہیں، طالبان کے پاس افغان عوام کا قتل جاری رکھنے کا کوئی جائز جواز نہیں۔"
بیان میں کہا گیا، "طالبان نے حالیہ ہفتوں میں اپنی کاروائیوں سے یہ سبق حاصل کر لیا ہو گا کہ دلیر افغان سیکیورٹی اینڈ ڈیفنس فورسز کے خلاف میدانِ جنگ میں فتح کے ان کے حساب ایک غلطی تھے۔"
قومی مفاہمت کے لیے اعلیٰ کاؤنسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے طالبان سے ایک مستقل جنگ بندی کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مزاکرات کرنے کا مطالبہ کیا۔
عبداللہ نے پیر کو ٹویٹ کیا، "تحریکِ طالبان نے عید الفطر کے دوران تین روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے خیال میں ملک میں حالیہ بحران کا حل تیز تر مزاکرات میں شامل ہونے، اور ایک مستقل جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے جنگ کا خاتمہ کرنے میں ہے۔"
انہوں نے کہا، "ماضی میں حکومتِ اسلامی جمہوریہٴ افغانستان [افغان حکومت] عید اور خاص مواقع پر یک طرفہ جنگ بندی کے اعلانات کر چکی ہے۔ ایسے مواقع پر عارضی جنگ بندیاں ہماری عوام کو قلیل مدتی مواقع فراہم کرتی ہیں تاہم انہیں ہمارے ملک کے لیے دیرپا حل کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔"
انہوں نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے بحران کا کوئی عسکری حل نہیں ہے، اور گزشتہ چار دہائیوں کے تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ "نہ صرف یہ کہ دہشت اور قتل کا نسخہ کوئی حل نہیں، بلکہ اس نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔"
انہوں نے طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "لہٰذا ان گروہوں کو غلط قیاس آرائیوں سے بچنا چاہیئے جو سمجھتے ہیں کہ وہ دہشت اور قتل کی زیادتی سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔"
عبداللہ نے کہا، "میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر تحریکِ طالبان سے مزکرات کے دوبارہ آغاز، ایک مستقل جنگ بندی پر اتفاق کرنے، جنگ اور خونریزی کا خاتمہ کرنے اور طرفین کے لیے ایک جامع، منصفانہ اور باعزت صلح جوئی کی کوشش کا مطالبہ کرتا ہوں۔"
امریکی منتظم الامور روس ولسن نے پیر کو ٹویٹر پر کہا، "ہمیں امّید ہے کہ افغان ہدف بنا کر قتل کیے جانے اور بم حملوں کے بغیر عید منانے کے لیے چند روزہ امن سے استفادہ کر سکیں گے، لیکن چند روز کافی نہیں۔"
انہوں نے کہا، "افغان ایک جامع #جنگ بندی کے ساتھ ساتھ ایک منصفانہ اور دیرپا امن کے سزاوار ہیں۔"
طالبان کا تشدد
یہ جنگ بندی حالیہ دنوں میں شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد سامنے آئی۔
وزارتِ امورِ داخلہ (ایم او آئی) نے پیر کو کہا کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان سے چند ہی گھنٹے قبل صوبہ زابل میں راتوں رات سڑک کنارے نصب ایک بم ایک بس سے ٹکرایا جس سے کم از کم 11 افراد جاںبحق ہو گئے۔
ایم او آئی کے ترجمان طارق آریان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں 28 دیگر افراد زخمی ہوئے۔
طلوع نیوز نے وزارتِ داخلہ کے پیر کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ یہ سانحہ اتورا کی شام ضلع شہرِ صفا کے علاقہ مسکان کیمپ میں پیش آیا۔
بیان میں کہا گیا، "یہ بم طالبان نے نصب کیا تھا۔"
درایں اثناء، ہفتہ کو کابل میں سیدالشہداء گرلز سکول کے باہر ایک کاربم پھٹا، اور جب طالبات خوف میں باہر کو بھاگیں تو دو مزید آلات پھٹ گئے۔
عید الفطر سے قبل، جب باشندے خریداری میں مصروف تھے، ہونے والے ان دھماکوں میں مغربی کابل کے ایک ہزارہ اکثریت والے گنجان آباد علاقہ دہشتِ برچی میں 50 سے زائد افراد جاںبحق ہو گئے، جن میں اکثریت طالبات کی تھی، جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
اتوار کو عزہ و اقارب نے "یادگارِ شہداء" کے نام سے معروف ایک پہاڑی مقام، جہاں ہزارہ برادری پر حملوں کے متاثرین کو سپردِ خاک کیا جاتا ہے، پر جاںبحق ہونے والوں کی تدفین کی۔
غنی سمیت افغان حکام نے طالبان کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
دھماکوں کے بعد غنی نے ایک بیان میں کہا، "اس وحشی گروہ کے پاس میدانِ جنگ میں سیکیورٹی فورسز کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں، اور اس کے بجائے وہ عوامی مقامات اور لڑکیوں کے سکولوں کو وحشت و بربریت کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں۔"
طالبان نے اپنے ملوث ہونے کی تردید کی اور زور دیا کہ انہوں نے فروری 2020 میں واشنگٹن کے ساتھ امن مزاکرات اور باقی امریکی فوجیوں کے انخلاء کی راہ ہموار کرنے والے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے کابل میں کوئی حملے نہیں کیے۔