دہشتگردی

'چہچہاتا خلیفہ': داعش راہنما کی جیل میں مخبری کی نئی تفصیلات آشکار

پاکستان فارورڈ

ایک امریکی فوجی، عراق کے کیمپ بوکا میں، 2008 میں زیرِحراست قیدیوں کو اسلامی مباحثے کے کورس کے دوران سُن رہا ہے۔ [اے ایف پی فوٹو/ ڈیوڈ فرسٹاائڈ فورسٹ/ اے ایف پی]

ایک امریکی فوجی، عراق کے کیمپ بوکا میں، 2008 میں زیرِحراست قیدیوں کو اسلامی مباحثے کے کورس کے دوران سُن رہا ہے۔ [اے ایف پی فوٹو/ ڈیوڈ فرسٹاائڈ فورسٹ/ اے ایف پی]

نئی ڈی کلاسیفائڈ کردہ تدبیری تفتیش کی رپورٹیں، جو "دولتِ اسلامیہ (داعش) کے موجودہ راہنما، امیر محمد سید عبد الرحمن المولا کی 2008 کی قید سے متعلق ہیں، سے آشکار ہوا ہے کہ وہ اپنے حریفوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا مشتاق تھا۔

المولا "ایک مشکوک شخصیت جو "ابو ابراہیم ال حاشمی القریشی" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کو امریکہ کی طرف سےعراق میں، چلائے جانے والے کیمپ بوکا جیل میں 2007 کے آخیر یا 2008 کے آغاز میں یا کم از کم جولائی 2008 میں، جب تفتیش کا ریکارڈ رک گیا" قید رکھا گیا تھا۔

اپنی گرفتاری کے وقت، وہ انتہاپسند گروہ، جو اس وقت عراق میں القاعدہ (اے کیو آئی) کے طور پر کام کر رہا تھا، کا سب سے اعلی شرعی اہلکار تھا۔

53 نئی ڈی کلاسیفائڈ کی جانے والی رپورٹیں، جنہیں منگل (6 اپریل) کو، امریکی ملٹری اکیڈمی جو کہ ویسٹ پوائنٹ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، میں قائم کمبیٹنگ ٹیرر سینٹر (سی ٹی سی) نے جاری کیا ہے اور یہ ستمبر میں جاری کی جانے والی تین تفتیشی رپورٹوں سے اضافی ہیں۔

امریکی حکومت ایسی معلومات پر 10 ملین ڈالر تک کے انعام کی پیشکش کر رہی ہے جو داعش کے راہنما امیر محمد سید عبد الرحمن المولا کو سزا دلانے میں مدد کریں۔ [امریکی ڈپلومیٹک سیکورٹی سروس/ فیس بک]

امریکی حکومت ایسی معلومات پر 10 ملین ڈالر تک کے انعام کی پیشکش کر رہی ہے جو داعش کے راہنما امیر محمد سید عبد الرحمن المولا کو سزا دلانے میں مدد کریں۔ [امریکی ڈپلومیٹک سیکورٹی سروس/ فیس بک]

واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کو کہا کہ یہ المولا کی آغاز کی سرگرمیوں کے بارے میں "ایک نایاب کھڑکی" کھولتی ہیں اور داعش کے راہنما کے کردار اور ارادوں کے بارے میں ایک زیادہ واضح تصویر پیش کرتی ہیں۔

'جیل کا مخبر'

اس میں کہا گیا ہے کہ ڈی کلاسیفائڈ کیے جانے والے حالیہ ریکارڈ سے "ایک زرخیز -- کسی کسی وقت انتہائی مشتاق - قیدی کی انتہائی قریبی تصویر سامنے آتی ہے، جس نے امریکی فورسز کو انتہائی بیش بہا معلومات فراہم کیں جنہوں نے انہیں اس، دہشت گرد تنظیم سے جنگ کرنے میں مدد فراہم کی، جس کا وہ اب سربراہ ہے۔

"ان رپورٹوں سے جو بات واضح ہے کہ 2008 کے آغاز میں کم از کم دو ماہ کے عرصے میں، المولا تفتیش کاروں کے لیے بالکل سچے خواب کی طرح تھا کیونکہ وہ دہشت گرد راہنماؤں کی شناخت فراہم کر رہا تھا اور نقشے جیسی ہدایات دے رہا تھا کہ انہیں کیسے گرفتار کیا جا سکتا ہے"۔

المولا، امریکی فورسز کو اے کیو آئی کے اپنے حریفوں تک لے گیا اور اس نے نہ صرف انہیں فون نمبر فراہم کیے بلکہ مصوری خاکوں میں بھی مدد کی اور ان کے گھروں، گاڑیوں اور جہاں وہ پائے جا سکتے تھے، ان جگہوں کی شناخت فراہم کی۔

اس نے گروہ کے کچھ ارکان کی انتہائی تفصیلی جسمانی حلیہ بھی دیا۔

اخبار نے کہا کہ "ستم ظریفی یہ کہ رپورٹوں میں المولا، امریکیوں کو مکمل مدد فراہم کر رہا ہے کہ وہ گروہ کے پروپیگنڈا یونٹ اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی تنظیم کے غیر عراقیوں کے پیچھے جائیں"۔

تازہ ترین رپورٹیں -- جنہیں سرخیوں کے ساتھ جاری کیا گیا -- میں نظر آتا ہے کہ المولا خصوصی طور پر گروہ کے غیر عراقی ارکان، جن میں جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں، کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا مشتاق تھا۔

خصوصی طور پر اس نے اے کیو آئی کے سیکنڈ ان کمانڈ، مراکش میں پیدا ہونے والے ابو قصروا کو "فروخت" ہی کر دیا اور اس کے احاطے کی ڈرائنگ بنائی اور ایک قریبی ساتھی کا نام بھی بتایا۔

ابو قصروا کو بعد میں امریکی فورسز نے موصل میں ہلاک کر دیا تھا۔

'چہچہاتا خلیفہ'

سی ٹی سی کے ریسرچ ڈائریکٹر ڈینیل ملٹن نے لافیئر جو کہ امریکہ کا ایک قومی سیکورٹی بلاگ ہے، پر لکھا کہ المولا نے اس سے پہلے اے کیو آئی کے موصل گورنر کے طور پر خدمات سر انجام دی تھیں۔

ملٹن نے کہا کہ "اپنی گرفتاری سے پہلے، المولا ایک ابھرتا ہوا راہنما تھا جو اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہا تھا اور اپنی فیصلہ کرنے اور مذاکرات کرنے کی صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے تنظیم کی صفوں میں آگے بڑھ رہا تھا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "تاہم جب اسے گرفتار کیا گیا تو وہ ایک پرندے کی طرح اپنی تنظیم کے بارے میں بولنے لگ گیا اور ایک عالم کے مطابق ایک "چہچہاتا خلیفہ بن گیا"۔

مخبر کے طور پر المولا کا ماضی، اس وقت عسکری حلقوں میں پہلے ہی سے سب کو معلوم تھا، جب اس کے راہنما ابوبکر البغدادی کو شام میں امریکہ کی طرف سے کیے جانے والے ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔

داعش نے المولا کو 31 اکتوبر 2019 کو البغدادی کا جانشین نامزد کیا تھا۔

واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی ہے کہ، اس وقت "داعش کی حامی سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر نمایاں مبصرین" نے المولا کو آگے بڑھانے کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اسے اپنی خصوصی طور پر نامزد کردہ دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کیا تھا اور جسٹس پروگرام کے تحت اس کے بارے میں اطلاعات دینے پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا گیا تھا۔

'سفاک پالیسی ساز'

المولا، مبینہ طور پر 1976 میں تال افار میں، ایک ترکمان نسل خاندان میں، پیدا ہوا جو کہ موصل سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جس سے وہ شاذو نادر ہی داعش کی صفوں میں آگے بڑھنے والا ایک غیر عرب بن گیا۔

انسدادِ دہشت گردی کے منصوبے کے مطابق، المولا نے داعش کی صفوں میں "خود کو انتہائی جلدی قائم کر لیا اور اسے "پروفیسر" اور "تباہ کر دینے والے" کی عرفیت بھی دی گئی۔

اس میں کہا گیا کہ وہ داعش کے اندر "سفاک پالیسی ساز" کے طور پر جانا جاتا تھا اور اسے "البغدادی کی قیادت کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ" کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔

وہ ممکنہ طور پر عراق کی یزیدی اقلیت کو قتلِ عام، ملک بدری اور جنسی غلامی کا نشانہ بنانے کو جائز ثابت کرنے پر سب سے زیادہ مشہور تھا۔

ملٹن نے اپنے لافیئر کے تجزیے میں کہا کہ "انسدادِ دہشت گردی کا میدان، کسی حد تک، انتہاپسندوں کی اپنی تحریک کے لیے وفاداری کو رومانیت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

مگر حال ہی میں ڈی کلاسیفائڈ کی جانے والی رپورٹوں نے اس تصور کو باطل ثابت کرنے میں مدد کی ہے کہ انتہاپسند گروہوں کے ارکان "پرعزم اور پرجوش، قابل اور ہوشیار ہیں"۔

ملٹن نے کہا کہ "یہ کچھ واقعات میں یقینی طور پر سچ ہوتا ہے مگر پرانی تحقیق اور رپورٹوں سے ظاہر ہوا ہے کہ ان گروہوں کو تنظیمی انتظام کی فُرسُودگی کا سامنا ہے۔ یہ دستاویزات اس امر کی ایک دلچسپ تصویر پیش کرتی ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "رپورٹوں میں، ہم المولا کو مختلف سطحوں کی اہلیت اور وفاداری کے افراد کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اس نے کتنے زیادہ افراد کے نام بتائے، المولا ان صفات پر بھی مختلف نظر آتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500