سفارتکاری

'تعمیل میں ناکامی': ایران کو جوہری معاہدے پر سخت انتخابات کا سامنا

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جرنل گروسی 21 ستمبر کو آئی اے ای اے کی 64 ویں جنرل کانفرنس، جو کہ ویانا آسٹریا میں آن لائن منعقد ہوئی، میں ایران کے اٹامک انرجی چیف علی اکبر صالحی کو سن رہے ہیں۔ [جو کلمار/ اے ایف پی]

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جرنل گروسی 21 ستمبر کو آئی اے ای اے کی 64 ویں جنرل کانفرنس، جو کہ ویانا آسٹریا میں آن لائن منعقد ہوئی، میں ایران کے اٹامک انرجی چیف علی اکبر صالحی کو سن رہے ہیں۔ [جو کلمار/ اے ایف پی]

ایران کو بہت سے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے اگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اسے 2015 کے جوہری معاہدے پر، جس کی وہ خلاف ورزی کرتا رہا ہے، نئی یقین دہانی مل جائے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے جمعرات (28 جنوری) کو اقوامِ متحدہ اور ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ مل کر اس معاہدے پر کام کریں، جس کی شرائط کی ایران نے حالیہ مہینوں میں کئی بار خلاف ورزی کی ہے۔

نئے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے بدھ کو معاہدے پر واپسی کے لیے، صدر جو بائڈن کی رضامندی کی تصدیق کی، مگر ایران کی طرف سے اس دباؤ کو مسترد کر دیا کہ امریکہ اس سلسلے میں پہل کرے۔

بلنکن نے کہا کہ "ایران بہت سے پہلوؤں پر تعمیل نہیں کر رہا ہے۔ اور اس میں کچھ وقت لگے گا، اگر اس نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا تو، اسے واپس تعمیل کرنے کی طرف آنے پر اور ہمیں اس بات کا جائزہ لینے میں بھی کچھ وقت لگے گا کہ آیا وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے یا نہیں"۔

ایک تصویر جو کہ 10 نومبر 2019 کو لی گئی، ایران کے بوشہر نیوکلیر پاور پلانٹ میں دوسرے ری ایکٹر کی جائے تعمیر پر موجود کارکنوں کو، کام کے باضابطہ آغاز پر ہونے والی تقریب کے دوران، دکھا رہی ہے۔ [عطا کینارے/ اے ایف پی]

ایک تصویر جو کہ 10 نومبر 2019 کو لی گئی، ایران کے بوشہر نیوکلیر پاور پلانٹ میں دوسرے ری ایکٹر کی جائے تعمیر پر موجود کارکنوں کو، کام کے باضابطہ آغاز پر ہونے والی تقریب کے دوران، دکھا رہی ہے۔ [عطا کینارے/ اے ایف پی]

"کم از کم ہم ابھی وہاں تک نہیں پہنچے ہیں"۔

ایران نے جمعرات کو امریکہ کی طرف سے عمل درآمد کی طرف واپس آنے کے مطالبے کو رد کر دیا۔

امریکہ وہ واحد ملک نہیں ہے جو اصرار کر رہا ہے کہ ایران جوہری معاہدے، جو کہ جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہلاتا ہے، پر عمل درآمد کرے، اگر وہ امریکہ کی واپسی اور پابندیوں کو ہٹائے جانے کو دیکھنا چاہتا ہے۔

فرانس کی صدارت نے 25 جنوری کو کہا کہ اگر تہران چاہتا ہے کہ معاہدے پر دوبارہ سے سنجیدہ مذاکرات شروع ہو جائیں تو اسے مزید اشتعال انگیزیوں سے باز آنا چاہیے۔

فرانسیسی صدرات کے ایک اہلکار نے کہا کہ "اگر وہ مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور جے سی پی او اے کے تمام شرکاء کی طرف سے ایک نیا عہد حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے انہیں مزید اشتعال انگیزی سے باز رہنا چاہیے اور دوسرے انہیں، وعدوں کی صورت میں، ان کا احترام کرنا چاہیے جن کا ابھی وہ احترام نہیں کر رہے ہیں"۔

جے سی پی او اے پر ایران، امریکہ، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے درمیان 2015 میں اتفاق ہوا تھا۔ اس میں تہران کی طرف سے جوہری عزائم کو قابو کرنے اور اس بات کی یقین دیانی کہ وہ ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کرے گا، کے بدلے میں پابندیوں میں نرمی کی پیشکش کی گئی تھی۔

واشنگٹن نے پیرس اور برلن کے ساتھ مل کر، تہران کے ساتھ زیادہ وسیع پیمانے پر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا خصوصی طور پر اس کے میزائل پروگرام اور علاقائی اثر و رسوخ پر۔

ایران کے اقدامات پر تشویش

جوہری معاہدے کے حصہ کے طور پر، ایران نے "پلوٹونیم یا یورینیم دھاتیں یا ان کے مرکب کی پیداوار یا حصول" پر 15 سالہ پابندی پر اتفاق کیا تھا۔

مگر 13 جنوری کو، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا کہ ایران نے اسے اطلاع دی ہے کہ وہ تہران میں ایک تحقیقی ری ایکٹر کو جدید ترین ایندھن فراہم کرنے کے مقصد سے، یورینیم دھات کی پیداوار پر تحقیق کو آگے بڑھا رہا ہے۔

یورپی طاقتوں نے ایران کے منصوبوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور متنبہ کیا کہ تہران کے پاس اس عنصر کا "کوئی قابلِ اعتماد سویلین استعمال" موجود نہیں ہے۔

برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے 16 جنوری کو مشترکہ بیان میں کہا کہ "یورینیم دھات کی تیاری کے ممکنہ طور پر سنگین فوجی مضمرات ہیں"۔

وزراء نے کہا کہ "ہم ایران سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ اس معاہدے کو محفوظ رکھنے کے بارے میں سنجیدہ ہے تو وہ اس سرگرمی کو روک دے اور کسی تعطل کے بغیر، جے سی پی او اے پر عمل درآمد کے اپنے عہد کی طرف واپس آ جائے"۔

قبل ازیں، 4 جنوری کو ایران نے اس بات کا اعلان بھی کیا کہ اس نے اپنے زیرِ زمین کارخانے فاردو میں، یورینیم کو 20 فیصد خالصیت تک افزودہ کرنے کے عمل کو بھی شروع کر دیا ہے، جو کہ 2015 کے معاہدے میں لگائی جانے والی حد سے بہت آگے ہے۔

جمعرات کو، ایران کی پارلیمنٹ (مجلس) کے اسپیکر محمد -باغرغالباف نے دعوی کیا کہ ایران نے گزشتہ ماہ میں، 20 فیصد خالصیت کا 17 کلوگرام یورینیم پیدا کر لیا ہے -- جو کہ ابھی تک، اس معاہدے کے تحت، اس کے سب سے بڑے عہد کی خلاف ورزی ہے ۔

ایرانی راہنماؤں نے کیا کہا

ایران اس بات پر قائم رہا ہے کہ وہ مکمل تعمیل کی طرف واپس آ جائے گا اگر پابندیوں کو اٹھا لیا جائے اور وہ جے سی پی او اے کے تحت اقتصادی امداد سے فائدہ اٹھا سکے۔

اس کے باوجود، 9 جنوری کو راہ نمائے اعلی علی خامنہ ای نے تقریر میں کہا کہ "ہمیں امریکہ کے جے سی پی او اے کی طرف واپس آنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہمارا منطقی مطالبہ پابندیوں کو ہٹائے جانے کا ہے۔ اگر پابندیاں ہٹا لی گئیں، تو امریکہ کی جے سی پی او اے میں واپسی سمجھ میں آتی ہے"۔

اسی دن، ایران کے ایم پی احمد امیرآبادی-فراحنی نے کہا کہ 21 فروری کی ڈیڈ لائن، جو سخت گیر اکثریتی پارلیمنٹ کی طرف سےطے کی گئی ہے، تک امریکی پابندیوں کو ہٹایا نہ گیا تو ایران آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کو ملک سے نکال دے گا"۔

غالباف نے 10 جنوری کو اسی مطالبے کو دہرایا اور کہا کہ ایران اپنے پر لگائی پابندیوں کو، اس وقت اٹھایا جانا تسلیم کرے گا، جب وہ دوبارہ سے اپنا تیل فروخت کرنے کے قابل ہو جائے گا اور اس کے شہری دنیا بھر میں کاروبار کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

22 جنوری کو امریکہ کے رسالے فارن افیرز میں شائع ہونے والی ایک ادارتی صحفہ کی نظریاتی تحریر میں ایران کے وزیرِ خارجہ جاوید ظریف نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اپنی پابندیوں کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے "ضروری انتخاب" کرے۔

ظریف، جنہیں 2015 کے جوہری معاہدے کے خالقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، نے متنبہ کیا کہ امریکہ کی طرف سے اضافی رعایتوں کو حاصل کرنے کی کوشش، حتمی طور پر ناکامی کا شکار ہو گی۔

انہوں نے 26 جنوری کو روس کے دارالحکومت میں موجودگی کے دوران، ایران کی پوزیشن کو دہرایا تھا اور کہا تھا کہ واشنگٹن تہران پر اپنے جرمانے منسوخ کر دے، پھر ایران آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کے کام کو محدود نہیں کرے گا اور معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی طرف واپس آ جائے گا۔

ظریف نے کہا کہ "ہم ان کے مکمل نفاذ کو دوبارہ سے شروع کر دیں گے"۔

روس کا ایرانی حکومت پر دباؤ

جب سے امریکہ جوہری معاہدے سے نکلا ہے، روس اور یورپین دستخط کنندگان نے معاہدے کو بچانے کی کوششوں کی وکالت کی ہے اور ایران کو اپنی جوہری افزودگی بڑھانے کے خلاف متنبہ کیا ہے۔

روس کے نائب وزیرِ خارجہ سرگی ریبیکوف نے، تہران کی طرف سے ملک کے ایٹمی افزودگی کے مرکزی پلانٹ میں جدید سنٹری فیوجز لگانے کے منصوبے کا اعلان کیے جانے کے بعد، دسمبر میں ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ "مکمل ذمہ داری" قبول کرے"۔

ماسکو، نئی امریکی حکومت کے تحت، اس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں محتاط طور پر پرامید نظر آتا ہے اور اسلحے کے کنٹرول کے مذاکرات کار میخائل الیانوف نے اس کی پوزیشن کو "کاروباری اور عملیتی" کے طور پر بیان کیا ہے۔

دریں اثناء، ای یو کے امورِ خارجہ کے سربراہ جوزف بوریل نے 19 جنوری کو متنبہ کیا کہ معاہدہ "انتہائی اہم موڑ" پر ہے چونکہ ایران کی طرف سے اس کی خلاف ورزی کرنے کے اقدامات، امریکہ کو دوبارہ سے شامل کرنے کی کوششوں کے لیے خطرہ ہیں۔

بوریل نے ای یو کے وزرائے خارجہ کو لکھے جانے والے ایک خط میں، جسے اے ایف پی نے دیکھا ہے، لکھا کہ "ہم نے جوہری طرف اور اس کے ساتھ ساتھ ہی امریکی پابندیوں کے نئے سلسلے کی طرف، تشویش ناک پیش رفت دیکھی ہے"۔

اس خط میں کہا گیا کہ "اس سے سفارتی کوششوں کو، جس میں ہماری کوششیں بھی شامل ہیں، جے سی پی او اے کی طرف امریکہ کی واپسی کو ممکن بنانے کے لیے اور ایران کو جے سی پی او کے وعدوں کو پوری طرح نافذ کرنے کی طرف واپس لانے، کو نقصان پہنچ سکتا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500