ایران کی سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) نے گزشتہ ہفتے غیر معمولی طور پر بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہونے والی ایک تقریب کے دوران ایک نئی تزویراتی میزائل چھاؤنی کی نقاب کشائی کی ہے، حکومت کی جانب سے اقدامات کے سلسلے میں تازہ ترین جس سے آبنائے ہرمز میں سے گزرنے والی عالمی تجارت خطرے سے دوچار ہے۔
اگرچہ حکومتی صحافی عموماً ایسی نقاب کشائیوں میں شریک ہوتے ہیں، آئی آر جی سی نے اس تقریب میں ذرائع ابلاغ اور عوام کی رسائی کو روک دیا، جس سے یہ تصدیق کرنا ناممکن ہو گیا آیا کہ یہ کوئی نئی چھاؤنی تھی یا موجودہ چھاؤنیوں میں سے کوئی ایک تھی۔
آئی آر جی سی کے اخباری ذریعے، سپاہ نیوز نے آئی آر جی سی کے کمانڈر حسین سلامی کے 8 جنوری کے ایک بیان کے حوالے سے کہا کہ چھاؤنی، جو مبینہ طور پر خلیج میں کہیں واقع ہے، میں "آئی آر جی سی بحریہ کے تزویراتی میزائلوں کو ذخیرہ کرنے کے کثیر مجموعوں میں سے ایک مجموعہ" بنایا گیا ہے۔
سلامی نے مزید کہا، "آئی آر جی سی کی بحریہ میں اس سے ملتے جلتے کئی [ذخیرہ کرنے کے] مقامات ہیں۔ آپ میزائلوں کے ایک پوری قطار دیکھ سکتے ہیں جو اپنے لانچنگ کے نظاموں کے ساتھ موجود ہیں، قطار کئی کلومیٹر طویل ہے۔"
انہوں نے کہا، "یہ میزائل بالکل درستگی سے نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی مار سینکڑوں کلومیٹر تک ہے۔ وہ انتہائی تباہ کن ہیں اور دشمن کے الیکٹرانک [دفاعوں] میں سے گزر سکتے ہیں۔"
تاہم، آئی آر جی سی اپنے ہتھیاروں کے متعلق ڈینگیں مارنے کی ایک طویل تاریخ، اور ناقص میزائلوں اور ریڈار نظاموں کے ٹریک ریکارڈ کی حامل ہے، جن میں سے بیشتر بوسیدہ ہیں، اگر نئے بھی ہیں، تو وہ اوسط سے بھی کم معیار کے روسی یا چینی مواد کے ساتھ تیار کردہ ہیں۔
8 جنوری 2020 کا المناک واقعہ جس میں آئی آر جی سی نے یوکرائن کی طرف عازمِ سفر طیارے کو حادثاتی طور پر مار گرایا تھا جب وہ ابھی تہران سے اڑا ہی تھا، یہ انتہائی سنگین غلطیوں کے سلسلے میں تازہ ترین غلطی تھی۔
ان غلطیوں کا تاریخی سلسلہ کم از کم 2011 تک وسیع ہے، جب آئی آر جی سی کے چوٹی کے کئی اہلکار ایران کے میزائلوں کی تیاری کے پروگرام کے ساتھ منسلک ایک دھماکے میں مارے گئے تھے۔
انتقام کی بڑھکیں
دسمبر کے اوائل سے، ایرانی حکومت نے دھمکیوں کا طوفان چھوڑا ہوا ہے، جس میں جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ اور آئی آر جی سی کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
فخری زادہ کے قتل کے بعد آئی آر جی سی کا مخبری کا شعبہ زیرِ عتاب آ گیا تھا، ان کی موت، ساتھ ہی ساتھ حالیہ برسوں میں کئی دیگر ایرانی جوہری سائنسدانوں کی ہلاکتیں، حساس فوجی چھاؤنیوں میں کئی دھماکے، اور ایران میں ایک جوہری عمارت میں سے جوہری اور میزائل پروگرام کی حساس دستاویزات کی چوری، نے ایران کی مخبری کی صلاحیتوں پر تنقید کا طوفان کھڑا کر دیا ہے۔
تنہائی کے شکار اور شدید بدعنوانی، انتہائی بدنظمی اور سنگین امریکی پابندیوں کی وجہ سے معاشی زوال کے کنارے کھڑی، ایرانی حکومت شدید مندی اور حد سے زیادہ مہنگائی کی وجہ سے عوامی بغاوت کے خطرے سے دوچار ہے۔
حکومت کی آمدنی اس کی تیل کی فروخت میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے گھٹ گئی ہے۔
دریں اثناء، 4 جنوری کو ریاستی ذرائع ابلاغ نے بتایا تھا کہ ایران نے اپنے زیرِزمین فوردو مرکز میں یورینیم کو 20 فیصد افزودہ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، جو کہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں مقرر کردہ حد سے کافی زیادہ ہے۔
یہ اس تاریخی معاہدے کے تحت ایران کی جانب سے جوہری وعدوں سے تازہ ترین اور اہم ترین انحراف ہے۔
سوموار (11 جنوری) کے روز انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفال گروسی نے کہا کہ ایران افزودگی کی سرگرمیوں میں"کافی تیزی" کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے اور اس کا اپنے فوردو مرکز میں 20 فیصد افزودہ یورینیم کی ماہانہ 10 کلوگرام پیداوار تک پہنچ جانا متوقع ہے۔
امریکہ کی خلیج کے پانیوں پر حالیہ یلغاریں اور اضافی سامان کی تعیناتی، بالکل حال ہی میں 7 جنوری کو بی-52 بمبار جہازوں کی پروازیں، ایران یا اس کے ملیشیا گروہوں کی جانب سے کسی بھی ممکنہ حملے کی کارروائی کے لیے تیاری کرنے کے عملی ڈھانچے میں ہیں۔