دہشتگردی

حکام نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ہزاروں این جی اوز کو غیر مندرج کر دیا

اشفاق یوسف زئی

یکم ستمبر کو پشاور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے قریب لگائے گئے بینر میں عطیات کی اپیل کی گئی ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

یکم ستمبر کو پشاور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے قریب لگائے گئے بینر میں عطیات کی اپیل کی گئی ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) کے حکام نے اپریل سے جولائی کے دوران، کل 5,931 غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) میں سے 3,851 کو غیر مندرج کر دیا ہے کیونکہ وہ اپنی سرمایہ کاری اور منصوبوں کی تفصیلات کو بتانے میں ناکام رہی ہیں جو کہفنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط کو پورا کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

پیرس سے تعلق رکھنے والی بین الحکومتی تنظیم نے جون 2018 میں پاکستان کو اپنی نام نہاد گرے لسٹ میں شامل کر دیا تھا کیونکہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے میں ناکام رہا تھا۔

اس نے اسلام آباد کو ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے دی گئی مہلت میں ستمبر تک توسیع کر دی تھی۔

کے پی کے سماجی بہبود کے وزیر حشام انعام اللہ خان نے 30 اگست کو کہا کہ "ہم دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے جولائی میں غیر اندراج کردہ تنظیموں سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے عطیات اور اخراجات کے بارے میں مکمل تفصیلات بتائیں اگر وہ دوبارہ سے اندراج کروانا چاہتی ہیں"۔

تمام ضلعی افسران کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے متعلقہ علاقوں میں کام کرنے والی تمام تنظیموں کی نگرانی کریں۔

حشام نے کہا کہ "ابھی تک 200 غیر مندرج کردہ تنظیموں نے اپنے کھاتوں کے آڈٹ کردہ گوشوارے جمع کروا دیے ہیں جن کا ہم قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر جائزہ لے رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "گزشتہ سال، ہم نے کھاتوں کی رپورٹ نہ ہونے پر 41 این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کر دی تھی کیونکہ یہ مسلسل کیا جانے والے عمل تھا"۔

دیر سے تعلق رکھنے والے ایک نائب سوشل ویلفیر افسر گل شاد خان نے کہا کہ ضلعی افسران نے تجویز کیا ہے کہ صوبائی حکومت نو این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کر دے کیونکہ وہ اپنی آمدن کے ذرائع اور اخراجات کو پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم تعلیم، صحت، عورتوں کی ترقی اور برادری کی سطح پر دیگر پروگراموں میں ملوث این جی اوز کی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے اس رقم کو دہشت گردی کے کاموں کے لیے استعمال کیا تھا"۔

ایک سوشل ویلفیر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مردان میں حکام نے 17 مشتبہ این جی اوز کو بتایا کہ وہ ان این جی اوز کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے گزشتہ سال پہلے ہی 11 این جی اوز پر پابندی لگا دی ہے۔ وہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے بلیک لسٹ کیے جانے والے گروہوں سے جڑی ہوئی تھیں اور ہمیں پتہ چلا کہ وہ دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہمارا عملہ پولیس اور انتظامی شعبوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ تمام اضلاع میں کام کرنے والی تنظیموں کی تفتیش کی جا سکے"۔

نئے اقدامات

کے پی وہ واحد صوبہ نہیں ہے جو ان خیراتی اداروں کی نگرانی کر رہا ہے۔

سندھ کے اطلاعات کے وزیر نصیر حسین شاہ نے کہا کہ گزشتہ سال مئی میں، سندھ میں حکام نے 8,529 میں سے 3,773 این جی اوز کی رجسٹریشن کو منسوخ کر دیا تھا اور ان این جی اوز سے کہا گیا تھا کہ وہ ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کی روشنی میں قانونی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد دوبارہ سے درخواست دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ مزید 1,200 این جی اوز زیرِ تفتیش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم ایف اے ٹی ایف کی تجاویز کو نافذ کرنے جا رہے ہیں جن میں این جی اوز کے اثاثہ جات کی تفتیش کرنا شامل ہے تاکہ دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری کو روکا جا سکے"۔

خیراتی اداروں کی نگرانی کرنے کے لیے تازہ ترین کام اس وقت کیا گیا ہے جب وفاقی حکومت نے دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری اور منی لانڈرنگ پر قوانین کو سخت کر رہی ہے۔

قومی اسمبلی کی فنانس اور ریوینیو کی قائمہ کمیٹی نے 10 اگست کو اینٹی منی لانڈرنگ (دوسری ترمیم) بل منظور کیا۔

اس ترمیم نے منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے لیے جرمانے کے 5 ملین روپے (30,000 ڈالر) سے بڑھا کر 25 ملین روپے (150,000 ڈالر) اور کمپنیوں اور اداروں کے لیے اسے 100 ملین روپے (600,000 ڈالر) تک کر دیا ہے۔

اس میں تمام مالیاتی اور غیر بینکاری مالیاتی اداروں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ مشتبہ لین دین کے بارے میں رپورٹ جاری کریں اور پانچ سالوں تک تمام لین دین کا ریکارڈ رکھیں۔

کے پی کے وزیرِ اعلی کے خصوصی نائب، کامران خان بنگش نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبوں کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت نے پہلے صوبہ میں کام کرنے والی این جی اوز کو نو صفحات کا فارم بھیجا تھا کہ وہ اپنے معاملات کی تفصیلات فراہم کریں۔ جب ان این جی اوز کی انتظامیہ نے یہ فارم جمع نہیں کروایا تو حکومت نے مقامی اخبارات میں اشتہارات دیے جن میں ایسی تمام این جی اوز سے فارم جمع کروانے کے لیے کہا گیا تھا"۔

بنگش نے کہا کہ حکومت ان این جی اوز سے جو معلومات حاصل کرناچاہتی ہے اس میں رجسٹریشن کے سرٹیفکیٹ، قواعد و قوانین، سالانہ منصوبہ اور پانچ سالہ اسٹریٹجک منصوبہ، تفصیلاتی سالانہ بجٹ، ٹیکس رجسٹریشن کے سرٹیفکیٹس، ٹیکس سے چھوٹ کے سرٹیفکیٹس، گزشتہ تین سالوں کا ٹیکس ریٹرن، ودہولڈنگ ٹیکس کا ثبوت اور تین سالوں کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹیں شامل ہیں۔

محمد رفیق جو کہ پشاور کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کا مضمون پڑھاتے ہیں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے ایسے فوری اقدامات کا مقصد ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمین کرنے میں ناکام رہا تو اس کے سنگین اقتصادی نتائج ہو سکتے ہیں"۔

باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے پولیٹیکل سائنس دان نور جمال نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران، پاکستان نے دہشت گردی کے ملزمان کی بھاری تعدادکو گرفتار کیا ہے اور دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھنے والی کئی سو املاک پر قبضہ کیا ہے۔

"انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ایسیتنظیمیں ناخواندہ دیہاتیوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اسلام کے نام پر عطیات اکٹھے کرتی ہیں، کہا کہ "یہ ایک اچھا قدم ہے کہ حکومت نچلی سطح پر خیراتی اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھ رہی ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500