اسلام آباد -- پاکستان نے بہت سے بین الاقوامی امدادی گروہوں کو حکم دیا ہے کہ وہ 60 دنوں کے اندر اپنے کاموں کو سمیٹ لیں۔ یہ بات ایک بین الاقوامی این جی او نے بدھ (13 دسمبر) کو بتائی۔
حکام، ان تنظیموں کے ملازم رکھنے کے طریقوں اور دیگر معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے، غیر ملکی سرمایہ سے چلنے والی امدادی تنظیوں کو ان سخت قوانین کے تحت دوبارہ سے رجسٹر ہونے کے لیے کہہ رہے ہیں جو دو سال پہلے نافذ ہوئے تھے۔
اس کے نتیجہ میں بہت سی تنظیمیں اپنے لائسنس سے محروم ہو گئی ہیں۔
اوپن سوسائٹی فاونڈیشن کے ترجمان جوناتھن برچال نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہمارا خیال ہے کہ ہم ان 20 تنظیموں میں سے ایک ہیں جن کی رجسٹریشن کو مسترد کر دیا گیا ہے"۔
بین الاقوامی خیراتی ادارے ایکشن ایڈ جو کہ بہت سے مختلف اقسام کے منصوبوں کی مدد کرتا ہے، نے بھی کہا ہے کہ اسے پاکستان کو چھوڑ کر جانا پڑے گا۔
حالیہ سالوں میں، پاکستان نے بین الاقوامی امدادی گروہوں کے بارے میں اپنی پالیسیوں کو سخت کر دیا ہے اور ان پر الزام لگایا ہے کہ انہیں درپردہ جاسوسی کی مہمات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور انہیں بار بار متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو محدود کر دیں۔
معیار پر پورا اترنے میں ناکامی
حالیہ ہفتوں میں، حکومت نے 21 این جی اوز پر پاکستان میں کام کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے تعین کیے جانے والے معیار پر پورا اترنے میں ناکامی کے باعث، پابندی لگائی ہے۔ یہ بات وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر پاکستان فارورڈ کو بتائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معیارات، جن کا تعین 2015 میں کیا گیا تھا، حکومت کی دہشت گردی کے خلاف تشویش سے نکلے ہیں جو کہ 2013 اور 2014 میں خصوصی طور پر کافی زیادہ پھیلی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ "ماضی میں، نجی طور پر کام کرنے والی بہت سی تنظیمیں غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں"۔
مثال کے طور پر حکومت نے ڈاکٹرز وداوٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) پر وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے دو اضلاع میں کام کرنے پر پابندی لگا دی کیونکہ انہیں اس بات کی خبر ملی تھی کہ ایم ایس ایف حکام کو اس بات کا موقع دیے بغیر کہ وہ ان کے بارے میں جانچ پڑتال کر سکیں، مقامی افراد کو ملازم رکھ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود، پاکستان بین الاقوامی این جی اوز اور مقامی این جی اوز کا شکرگزار ہے جنہوں نے کئی بار قدرتی آفات کے متاثرین کو مدد فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جن این جی اوز کا لائسنس ختم ہو گیا ہے ان کے پاس اپنی سرگرمیوں کو سمیٹنے کے لیے 60 دن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "وہ وزارتِ داخلہ کے پاس اپیل دائر کر سکتے ہیں"۔
ایکشن اینڈ کی شکایات
یہ خبر ان مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جنہیں توقع تھی کہ وہ پاکستان میں کام کرنا جاری رکھیں گی۔
ایکشن اینڈ پاکستان کنٹری پروگرام کے کنٹری ڈائریکٹر افتخار اے نظامی نے جمعرات (14 دسمبر) کو ایک بیان میں کہا کہ وزارتِ داخلہ نے ایکشن ایڈ کو رجسٹر کرنے سے انکار کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں کام بند کرنے کے لیے 60 دن دیے گئے ہیں۔ ہم نے وہ تمام معلومات اور دستاویزات فراہم کی تھیں جو درکار تھیں اور ہمیں پوار یقین تھا کہ ہم نے تمام ضروری قواعد و قوانین کو پورا کر دیا ہے"۔