دہشتگردی

اقوامِ متحدہ کے ٹی ٹی پی رہنماؤں کو دہشتگردی کی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے پر پاکستان کا خیرمقدم

ضیاءالرّحمٰن

جون 2019 میں جنوبی وزیرستان میں ایک ڈسپنسری پر لگائے گئے اشتہار میں مفتی نور ولی محسود (سب سے اوپر دائیں) سمیت ٹی ٹی پی کمانڈروں کے سر پر انعام کا اعلان کیا گیا۔ [ضیاءالرّحمٰن]

جون 2019 میں جنوبی وزیرستان میں ایک ڈسپنسری پر لگائے گئے اشتہار میں مفتی نور ولی محسود (سب سے اوپر دائیں) سمیت ٹی ٹی پی کمانڈروں کے سر پر انعام کا اعلان کیا گیا۔ [ضیاءالرّحمٰن]

اسلام آباد – حکومتِ پاکستان نے اقوامِ متحدہ سیکیورٹی کاؤنسل (یو این ایس سی) کے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود پر پابندیاں لگانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

یو این ایس سی کی پابندیوں کی کمیٹی نے 16 جولائی کو محسود کو القاعدہ دہشتگرد نیٹ ورک کے ساتھ "منسلک اشخاص کی جانب سے، کی حمایت میں، کے ایما پر، کے نام کے تحت، یا ان کے ساتھ اتحاد سے اقدامات یا سرگرمیوں کی فراہمیٴ مالیات، منصوبہ بندی، تسہیل کاری یا ارتکاب کرنے پر ایک عالمی دہشتگرد قرار دے دیا تھا۔"

اس اقدام نے محسود کو اقوامِ متحدہ کی "دولتِ اسلامیہ" (داعش) اور القاعدہ کی پابندیوں کی فہرست پر ڈال دیا۔

ٹی ٹی پی کو جولائی 2011 میں القاعدہ کے ساتھ منسلک ہونے پر متعین کیا گیا تھا۔

17 جولائی کو کراچی میں رینجرز سیکیورٹی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

17 جولائی کو کراچی میں رینجرز سیکیورٹی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

محسود، جو ابو منصور عاصم کا عرف استعمال کرتا ہے، کو اپنے پیش نشینملا فضل اللہکے صوبہ کنڑ، افغانستان میں امریکی اور افغان افواج کے مشترکہ آپریشن میں قتل کیے جانے کے بعد جون 2018 میں ٹی ٹی پی کا سربراہ بنایا گیا۔

محسود کی زیرِ قیادت، ٹی ٹی پی نے پاکستان بھر میں متعدد دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

یو این ایس سی نے کہا کہ ان میںجولائی 2019میں شمالی وزیرستان میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو ہدف بنانے والا ایک حملہ اور اگست 2019 میں خیبر پختونخوا میں پاکستانی فوجیوں کے خلاف ایک بم حملہ شامل ہیں۔

محسود کو اثاثے منجمد کیے جانے، سفری پابندی اور اسلحہ رکھنے کی ممانعت کا سامنا ہو گا۔

گزشتہ ستمبر امریکہ کے محکمہٴ خارجہ نےمحسود کو ایک عالمی دہشتگرد قرار دیا تھا۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے 17 جولائی کو ٹی ٹی پی سربراہ کو پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے کے یو این ایس سی کے فیصلہ کا خیر مقدم کیا تھا۔

اس دفتر کی ایک ترجمان عائشہ فاروقی نے ایک بیان میں کہا، "پاکستان یو این ایس سی کی متعلقہ قراردادوں کی تعمیل میں ان پابندیوں کا اطلاق کر رہا ہے، اور ہمیں امید ہے کہ دیگر ممالک بھی اس التماس کی پیروی کریں گے۔"

انہوں نے کہا، "پاکستان دہشتگردی میں ملوث شرکاء، مالیات فراہم کنندگان، منصوبہ سازوں، تسہیل کاروں اور مرتکبین کے خلاف اپنی لڑائی کی پالیسی کی پیروی جاری رکھے گا۔"

ایک کمزور شدہ گروہ

محسود جو اپنی عمر کی 40 ویں دہائی میں ہے، تحصیل سراروغہ، جنوبی وزیرستان کے گاؤں گروگورئے سے ہے اور محسود قبیلہ کے ذیلی قبیلہ مشیخیل سے تعلق رکھتا ہے۔

قبل ازاں اس نے ٹی ٹی پی کی ایک شرعی عدالت کے ایک قاضی کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور اپنے آبائی گاؤں میں اس گروہ کے ایک تربیتی مرکز کی سربراہی کی۔

ماضی میں اس نے پولیو ایمیونائزیشن کے خلاف کام کرتے ہوئے یہ پراپیگنڈا پھیلایا کہ یہ ویکسینز مسلمانوں کو نامرد کرنے اور ان کے بچوں کی افزائش کو روکنے کے لیے مغربی شازش کا جزُ ہیں۔

جون 2013 سے مئی 2015 تک ٹی ٹی پی کے کراچی باب کے رہنما کے طور پر محسود نے اس شہر کی پشتون برادری کو قتل اور اغوا کی ایک مہم کے ساتھ ساتھ سکولوں پر بم حملوں کے ذریعے عذاب میں مبتلا کیا۔

ٹی ٹی پی نے دسمبر 2007 میں اپنی تشکیل سے اب تک متعدد عسکریت پسند گروہوں کے لیے ایک چھتری جیسی تنظیم کے طور پر کام کیا۔ اس کے حملوں نے دیگر اہداف کے ساتھ ساتھ شہریوں، نفاذِ قانون کے اہلکاروں اور پولیو ویکسینیشن ٹیموں کو نشانہ بنایا۔ اس نے حکومتی تنصیبات اور مقاماتِ عبادت پر بم حملے کیے۔

تاہم، سیکیورٹی عہدیداران کے مطابق،2014 میں انسدادِ شورش آپریشن ضربِ عضبنے مؤثر طور پر ملک بھر میں ٹی ٹی پی کے کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز کو ختم کیا۔

ملک بھر میں ٹی ٹی پی کے متعدد دھڑوں کے خلاف ایک کریک ڈاؤن کے بعد، عسکریت پسند ہمسایہ افغانستان کے صوبوں میں فرار ہو گئے۔

محسود نے اپنی حالیہ کتاب "انقلابِ محسود" میں اقرار کیا کہ گزشتہ چند برسوں میں سرحد کے ساتھ ساتھ مشترکہ آپریشنز میں ٹی ٹی پی کے متعدد کلیدی رہنما ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایک اعلیٰ انٹیلی جنس عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر بتایا، "ڈرون حملوں میں ٹی ٹی پی سربراہوں۔۔۔ اور دیگر اہم کمانڈروں کے قتل کی وجہ سے امریکی معاونت کے بغیر اس گروہ کو کمزور کیا جانا ممکن نہ تھا۔"

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی منیر احمد شاہ، جو عسکریت پسند تنظیموں پر مرکوز رہتے ہیں، نے کہا کہ مسلسل عسکری دباؤ، اعلیٰ سطحی کمانڈروں کے قتل اور گرفتاری، اور داخلی خلفشار سے ٹی ٹی پی نے اپنی طاقت کھو دی اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔

انہوں نے کہا، "ٹی ٹی پی کے لیے نئے بھرتی شدگان کو تلاش کرنا مشکل ہے۔۔۔ کیوں کہ وہ عوام کو اس بات پر قائل کرنے کی اپنی صلاحیت کھو چکی ہے کہ وہ اسلام کے لیے لڑ رہی ہے۔ عسکریت پسندوں نے سکول کے بچوں اور عبادت گزارون سمیت متعدد معصوم شہریوں کو قتل کیا ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھا کام کیا ہے پاکستانی فوج نے

جواب