سلامتی

امریکہ نے ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا

ضیاء الرحمان

پیراملٹری رینجرز 10 ستمبر کو کراچی میں گشت کر رہے ہیں، جہاں مفتی نور ولی مسحود نے ٹی ٹی پی کی مقامی شاخ کی جون 2013 سے مئی 2015 تک سربراہی کی تھی۔ ]ضیاء الرحمان[

پیراملٹری رینجرز 10 ستمبر کو کراچی میں گشت کر رہے ہیں، جہاں مفتی نور ولی مسحود نے ٹی ٹی پی کی مقامی شاخ کی جون 2013 سے مئی 2015 تک سربراہی کی تھی۔ ]ضیاء الرحمان[

کراچی -- امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے منگل (10 ستمبر) کو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے راہنما کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا۔

اعلان میں کہا گیا ہے کہ مفتی نور ولی مسحود کی زیرِ قیادت، ٹی ٹی پی نے "پاکستان بھر میں بہت سے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے"۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ماضی میں کالعدم قرار دیے جانے والی گروہوں کے دیگر 11 راہنماؤں کو بھی عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے جن میں حزب اللہ، حماس، فلسطین اسلامی جہاد، "دولتِ اسلامیہ" (داعش)، داعش فلپائن اور داعش ویسٹ افریقہ شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "موجودہ انتظامیہ امریکی طاقت کو اپنے مفاد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرنا جاری رکھے گی جس میں مالی پابندیوں سے لے کر ایسے دہشت گردوں کو نشانہ بنانا شامل ہے جو ہلاکت خیز مہمات کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور دنیا بھر میں بے گناہ شہریوں کو بلا امتیاز ہلاک کرتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف بھی جو ایسے سفاکانہ اقدامات کو ممکن بناتے ہیں، ان کے لیے مدد یا سرمایہ فراہم کرتے ہیں"۔

گزشتہ دسمبر میں کراچی کے سرگرم کارکن آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور میں 2014 میں ہونے والے قتلِ عام کی برسی کے موقع پر تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]ضیاء الرحمان[

گزشتہ دسمبر میں کراچی کے سرگرم کارکن آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور میں 2014 میں ہونے والے قتلِ عام کی برسی کے موقع پر تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ]ضیاء الرحمان[

محسود، جو ابو منصور عاصم کی عرفیت بھی استعمال کرتا ہے، جون 2018 میں، اپنےپیشرو ملا فضل اللہ، جو کہ امریکہ اور افغان فورسز کی طرف سے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں کی جانے والی مشترکہ مہم میں ہلاک ہو گیا تھا، ٹی ٹی پی کا راہنما بنا تھا۔

امریکہ نے ٹی ٹی پی کو 2010 میں دہشت گرد گروہ قرار دیا تھا اور فضل اللہ کو 2015 میں عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔

مسحود جو کہ اب چالیس کے پٹے میں ہے، سراراوغا تحصیل، جنوبی وزیرستان کے گاوں گورگرے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے بہت سے عہدے سنبھالے ہیں جن میں شرعی کورٹ کا جج ہونا اور اپنے آبائی گاوں میں ٹی ٹی پی کے تربیتی مرکز کا ڈائریکٹر ہونے شامل ہے۔

جون 2013 سے مئی 2015 تک ٹی ٹی پی کراچی کی شاخ کا سربراہ ہوتے ہوئے مسحود نے شہر کی پشتون برادری کو اذیت کا شکار کر رکھا تھا۔

مانسہرہ بازار میں ٹی ٹی پی کے دفتر میں لینڈ لائن کا استعمال کرتے ہوئے، مسحود پشتون راہنماؤں، دیگر بارسوخ افراد اور ان کے اہلِ خاندان کو دھمکیاں دیتا تھا اگر وہ بھتے کی رقم دینے سے انکار کرتے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے پشتون ٹرانسپوٹر، اکمل خان جنہوں نے 2012 میں مسحود خان کے عسکریت پسندوں کی طرف سے اپنے پانچ سالہ بیٹے کو اغوا کیے جانے کے بعد، ایک ملین روپے ( 6,390 ڈالر) کا بھتہ ادا کیا تھا، کہا کہ "کچھ واقعات میں، گروہ نے بعض اوقات انہیں مانسہرہ میں اپنی عدالت میں پیش ہونے کا حکم بھی دیا"۔

انہوں نے کہا کہ "ٹی ٹی پی کے ارکان مجرم ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ صرف بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان سے رقم اکٹھی کر رہے ہیں"۔

محسود نے ایک کتاب، جس کا عنوان انقلابِ محسود ہے، دسمبر 2017 میں جاری کی تھی جس میں ٹی ٹی پی کی طرف سے کی جانے والی بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور قتل کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی تھیں۔

اس نے بے حیائی سے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے خلاف گروہ کی مہم اور اس کے اس پروپیگنڈا کے، اثرات کو تسلیم کیا کہ قطرے پلانے کی مہم مغربی سازش ہے اور اس ک مقصد مسلمانوں کو بانجھ بنانا اور ان کے بچوں کی نشوونما کو روکنا ہے۔

کمزور ہو گیا گروہ

ٹی ٹی پی، جسے دسمبر 2007 میں بنایا گیا تھا، بہت سے عسکریت پسند گروہوں کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اپنے قیام سے، اس نے عام دوسروں کے علاوہ شہریوں، حکومتی اداروں، عبادت گاہوں، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو نشانہ بنایا ہے۔

سیکورٹی کے حکام نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے کمانڈ اور کنٹرول سینٹرز کو ملک بھر میں ہونے والی عسکری مہمات، جن کا آغاز 2014 سے ہوا تھا، کے بعد موثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے۔

ایک سینئر انٹیلیجنس اہلکار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ"گروہ کو کمزور بنانا،امریکہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا"۔

اہلکار نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں ٹی ٹی پی کے راہنماؤں کے خلاف حملوں نے "دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی مدد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے"۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے مطابق، اگرچہ ٹی ٹی پی کو عسکری آپریشنز کے باعث بہت بڑے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں مگر یہ پاکستان کے عدم استحکام میں ابھی بھی بہت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

پی آئی پی ایس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ 2017 میں گروہ نے 70 حملے کیے اور افراد کو ہلاک کیا۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار فرحان زاہد نے کہا "ٹی ٹی پی اپنی زندگی کے چکر میں خاتمے کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور اس سے اس کی بحالی ناممکن نظر آتی ہے"۔

زاہد نے کہا کہ "ٹی ٹی پی نئے رنگروٹ بھرتی کرنے میں مشکلات کا شکار ہے۔ مگرhardening of the Afghanistan-Pakistan border پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے مضبوط ہو جانے اور سرحد پر نگرانی کے بہتر انتظامات سے، افغانستان میں اس کے ٹھکانے خطرے میں ہیں اور پاکستان کو جہاد کے ذریعے بنیاد پرست بنانے کے نظریے کو خریدنے پر کوئی تیار نہیں ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500