صحت

قبائلی علاقوں میں بچوں کو قطرے پلانے کی مہم عالمی وباء کے دوران بھی جاری

اشفاق یوسف زئی

صحت عامہ کے کارکن جنوبی وزیرستان میں 20 جون کو بچوں کو قطرے پلا رہے ہیں۔ [کے پی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ]

صحت عامہ کے کارکن جنوبی وزیرستان میں 20 جون کو بچوں کو قطرے پلا رہے ہیں۔ [کے پی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ]

پشاور -- پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے والے، کرونا وائرس کی عالمی وباء کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں خصوصی طور پر نئی انضمام شدہ قبائلی ڈسٹرکٹس میں۔

یہاں تک کہ سماجی طور پر فاصلے کو برقرار رکھتے اور کام کے عمومی طریقوں پر عمل کرتے ہوئے بھی، صحتِ عامہ کے کارکن ایسے علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے جو اس سے پہلے دہشت گردی کے باعث ناقابلِ رسائی تھے۔

جنوبی وزیرستان ڈسٹرکٹ کے ایک پولیو افسر ڈاکٹر جواد علی نے کہا کہ "طالبان عسکریت پسند بچوں کو ایک صحت مندانہ ماحول میں پرورش پانے کی اجازت نہیں دینا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے حفاظتی ٹیکوں پر پابندی لگا دی اور (2001 سے 2015 کے دوران) اس وقت کے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں تقریبا 2,000 بچوں کو پولیو ہو گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کارکن نہ صرف قطرے پلا رہے ہیں بلکہ وہکووڈ 19 کے حفاظتی اقدامات کے بارے میں آگاہی بھی پھیلا رہے ہیں۔

صحت عامہ کے حکام 23 جون کو پاراچنار، کرم ڈسٹرکٹ میں بچوں کو قطرے پلا رہے ہیں۔ [کے پی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ]

صحت عامہ کے حکام 23 جون کو پاراچنار، کرم ڈسٹرکٹ میں بچوں کو قطرے پلا رہے ہیں۔ [کے پی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ]

علی کے مطابق، قطرے پلائے جانے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ رہائشی اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

ایک اور پانچ روزہ انسدادِ پولیو مہم، جنوبی وزیرستان میں 20 جولائی سے شروع ہونے کی توقع ہے۔

انضمام شدہ ڈسٹرکٹس کے، حفاظتی ٹیکوں کے توسیع شدہ پروگرام (ای پی آئی) کے مینیجر ڈاکٹر حفیظ اللہ کے مطابق، گزشتہ قطرے پلانے کی مہم 15 جون سے 27 جون تک جاری تھی اور اس نے حدف شدہ علاقے میں 81 فیصد بچوں کو کور کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے 123,323 میں سے153,417 بچوں کو قطرے پلا دیے ہیں ۔۔۔ سات قبائلی ڈسٹرکٹس میں، جو کہ اس سال فروری میں حاصل کی جانے والی 75 فیصد کوریج سے زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گھر گھر جانے کی مہم کے دوران ہی، بچوں کو ای پی آئی کے مراکز میں بھی قطرے پلائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگلے سال کے دوران، ای پی آئی قطرے پلانے والوں کی تعداد کو 593 سے بڑھا کر کر 800 دے گی تاکہ نیٹ ورک کو مزید مضبوط بنایا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شہریوں کو ان کے قریب ترین مراکز میں حفاظتی ٹیکے لگائے جائیں۔

انضمام شدہ ڈسٹرکٹس کی ہیلتھ سروسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیاز آفریدی، جنہوں نے 16 جون کو جنوبی وزیرستان میں مہم کا افتتاح کیا تھا، کہا کہ حکام تمام مہیا وسائل کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ شہریوں کو صحت عامہ کی بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ "والدین بچپن کی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگوانے کی اہمیت سے آگاہ ہیں مگر ماضی میں دہشت گردی نے انہیں اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے سے روکے رکھا۔ اب صورتِ حال مکمل طور پر بدل گئی ہے اور وہ حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے اپنے بچوں کو بغیر کسی ڈر کے لانے کے قابل ہو گئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ حفاظتی ٹیکوں سے قابلِ انسداد 10 بیماریوں کے لیے حفاظتی ٹیکے لگانے کی کوششوں، جس میں تپِ دق (ٹی بی)، پولیو، پیچش (روٹا وائرس)، نمونیا، پرٹیوسس (کالی کھانسی)، ٹیٹنس، ہیپیٹائٹس بی، گردن توڑ بخار، خناق اور خسرہ، کو انتہاپسندی کے باعث بہت نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں خسرے، پولیو اور دیگر بیماریوں کے بڑے پیمانے پر پھیل جانے نے، بچوں کو بہت متاثر کیا تھا مگر اب طبی عملہ انہیں مفت حفاظتی ٹیکے لگا کر محفوظ کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ مہم میں، طبی عملے کو ایسے والدین میں شوق نظر آیا جو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے آنے والی ٹیموں کے پاس اپنے بچوں کو لے کر آئے تھے۔

آفریدی نے کہا کہ ان مہمات کا بنیادی مقصد، حفاظتی ٹیکوں سے روکے جانے کے قابل بیماریوں کے خلاف معاشرے کی مدافعت کو بڑھانا ہے۔

سیکورٹی کی بہتر صورتِ حال

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحتِ عامہ کے ایک کارکن محمد اسلم نے یاد کیا کہ طالبان کے عسکریت پسند کیسے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے سے روکتے تھے۔

"صرف کچھ سال پہلے ہی، یہ ایک خواب ہی لگتا تھا کہ دہشت گردی کے شکار علاقوں کے بچوں کو کبھی بھی حفاظتی ٹیکے اور بیماریوں کے خلاف حفاظت مل سکے گی"۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ کامیابیاں "ایسے دہشت گردوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جنہوں نے حفاظتی ٹیکوں کی انتہائی سخت مخالفت کی تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسند ہمارے ویکسینیشن کے ڈبوں کو توڑ دیتے تھے اور ہمارے ہم منصبوں کو انتہائی سخت انتباہ کے ساتھ سرزنش کرتے تھے۔ اب کوئی خطرات نہیں ہیں اور کافی آزادی سے اپنا کام کر سکتے ہیں۔ پاکستانی پولیس اور فوج کارکنوں کی حفاظت کر رہی ہے"۔

خیبر ڈسٹرکٹ کے ایک دکان دار ظاہر شاہ نے کہا کہ "ماضی میں، میرے دو بچے پولیو کے قطرے نہ ملنے کے باعثمعذور ہو گئے تھے مگر اب میں دوسروں کو قائل کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتا ہوں کہ وہ اپنے بیٹوں بیٹیوں کو قطرے پلائیں"۔

شاہ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب طالبان کا اس علاقے پر قبضہ تھا تو بہت سے بچے خسرہ کے باعث وفات پا گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "عسکریت پسندوں نے نہ صرف حفاظتی ٹیکوں پر پابندی لگا دی تھی بلکہ اسکولوں کو بھی تباہ کر کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے تاکہ مستقبل میں وہ کسی مزاحمت کے بغیر عوام پر حکومت کر سکیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500