صحت

عسکری آپریشن نے فاٹا اور کے پی میں ویکسینیشن کی راہ ہموار کر دی

اشفاق یوسفزئی

16 ستمبر کو محکمۂ صحت کا ایک کارکن جنوبی وزیرستان میں ایک لڑکے کو پولیو کے خلاف قطرے پلا رہا ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

16 ستمبر کو محکمۂ صحت کا ایک کارکن جنوبی وزیرستان میں ایک لڑکے کو پولیو کے خلاف قطرے پلا رہا ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور — محکمۂ صحت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں طالبان شرپسندوں کے خلاف عسکری مہم ان بچوں کے لیے ایک رحمت ثابت ہوئی ہے جنہیں اب پولیو کے قطرے مل رہے ہیں۔

فاٹا میں حفاظتی ٹیکوں کے وسیع تر پروگرام (ای پی آئی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر اختیار علی نے کہا، ”2014 میں [ویکسینیشنز کے خلاف] طالبان کی دہشتگردی کی وجہ سے فاٹا میں 179 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔“

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج کے انسدادِ عسکریت پسندی آپریشنز کی وجہ سے 2015 میں یہ تعداد کم ہو کر پولیو کے 16 واقعات تک آ گئی جو 2016 میں صرف دو رہ گئی۔

انہوں نے کہا، ”اب فوج کے ہاتھوں طالبان کی شکست کی وجہ سے ہم پانچ برس سے کم عمر کے دس لاکھ بچوں کو ویکسین دینے کے اپنے ہدف کو پہنچ رہے ہیں،“ انہوں نے مزید کہا کہ قطرے پلانے والے نفاذِ قانون کے اہلکاروں کی مدد سے بچوں کو قطرے پلانے کے لیے گھر گھر جاتے ہیں۔

2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے آغاز سے قبل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگرد شمالی اور جنوبی وزیرستان میں والدین اور قطرے پلانے والوں کو دھمکاتے تھے، جس سے تقریباً 200,000 بچوں کو ویکسین نہ مل سکی۔

اختیار نے کہا، ”عسکری آپریشن ان بچوں کے لیے ایک رحمت ثابت ہوا جن کو اب بنا کسی رکاوٹ کے پولیو کے قطرے مل رہے ہیں۔“

والدین کی صحت تک بہتر رسائی کی پذیرائی

عسکری آپریشن میں عسکریت پسندوں کی شکست کے بعد وزیرستان کو لوٹنے والے والدین اپنے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے پر فوج اور محکمۂ صحت کے کارکنان کی تعریف کرتے ہیں۔

شمالی وزیرستان ایجنسی میں ایک سکول کے استاد غفور شاہ نے کہا، ”جب یہاں طالبان کا قبضہ تھا تو میں اپنے تین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے بنّوں کے قریبی ضلع لے جایا کرتا تھا، لیکن اب قطرے پلانے والے میرے بیٹوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے لیے باقاعدگی سے ہمارے گھر آتے ہیں۔“

وہ یاد کر رہے تھے کہ کیسے عسکریت پسند حفاظتی ٹیکے لگوانے کے خلاف ویکسینیٹرز کو زدوکوب کیا کرتے اور والدین کو دھمکایا کرتے تھے۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سکولوں اور محکمۂ صحت کے کارکنان کے خلاف طالبان کے حملوں کا مقصد ”بچوں کو نقصان پہنچانا تھا۔“

انہوں نے کہا، ”بچوں کے خلاف طالبان کے حملہ سب پر عیاں تھے، لیکن لوگ اپنی جانوں کے خوف کی وجہ سے خاموش رہتے تھے۔“

وزیرستان میں طالبان کی جانب سے حفاظتی ٹیکے لگوانے پر پابندی کے دوران 7 سالہ محمّد زین پولیو کا شکار ہو گیا۔

اس نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”میں ویکسینیشن پر پابندی لگانے پر طالبان عسکریت پسندوں کی مذمّت کرتا ہوں، جس کی وجہ سے میں اپاہج ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ بچوں کو معذوری کی زد میں لانے پر طالبان کو سزا دے گا۔“

زین نے کہا، ”اب جبکہ طالبان اس علاقہ سے جا چکے ہیں اور ویکسینیٹر آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں،“ اس کی بہن اوردو بھائی خوش قسمت ہیں کیوں کہ انہیں ویکسین مل رہی ہے۔

ویکسینیشن ایک مذہبی فریضہ

وانا، جنوبی وزیرستان میں ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال کے ایک ڈاکٹر حشمت علی نے کہا کہ فاٹا کے عوام کئی برسوں تک طالبان کی جانب سے اپنی زندگیاں بدحال بنائے جانے کے بعد بحالیٔ امن پر خوشی منا رہے ہیں۔

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہمارے لوگ امن پسند ہیں، لیکن عسکریت پسندی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔“ [طالبان نے] فوجیوں اور عام شہریوں کو قتل کیا اور نگہداشت صحت کی سرگرمیوں کو نقصان پہنچایا۔ شہری انہیں حقارت سے دیکھنے لگے۔“

انہوں نے کہا، ”لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس پر طالبان نے پابندی لگائی وہ لوگوں کی بہتری کی چیز تھی۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اس رویہ سے بالعموم حفاظتی ٹیکے لگوانے میں اضافہ ہوا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام فاٹا کے سربراہ مفتی عبدالشکور نے چند والدین کے خدشات پر اطمینان دلاتے ہوئے تصدیق کی کہ ویکسینیشن بچوں کے لیے محفوظ ہے اور اسلام میں اس کی اجازت ہے۔

انہوں نے پاکستان فاورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پولیو ویکسینیشن ہی بچوں کو معذوریوں سے محفوظ رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ میں ان لوگوں کی سخت مذمّت کرتا ہوں جو والدین کی غلط سمت میں رہنمائی کر رہے تھے کہ اسلام میں ویکسینیشن کی ممانعت ہے۔“

انہوں نے کہا، ”والدین کو چاہیئے کہ ویکسینیشن کے خلاف پراپیگنڈا پر توجہ نہ دیں اور انہیں چاہیئے کہ ایک روشن اور صحت مند مستقبل کے لیے اپنے بچوں کو ایمیونائز کریں۔“

دریں اثنا، شکور نے کہا کہ یہ والدین کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قطرے پلائیں۔

خیبرپختوںخواہ انسدادِ پولیو کیلئے پرامید

خیبرپختونخواہ نے بھی 2016 میں انسدادِ پولیو میں کامیابی حاصل کی۔ گزشتہ برس کے دوران صوبے میں پولیو کے آٹھ نئے کیس ریکارڈ ہوئے جبکہ 2015 میں 17 اور 2014 میں 68 کیس سامنے آئے تھے۔

خیبرپختونخواہ کے گورنر ظفر اقبال جھگڑا نے 30 دسمبر کو جاری ایک بیان میں کہا کہ ‘‘ہم پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب ہیں اور کسی کو بھی احسن انداز سے جاری مہم کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔’’

انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں، علماء اور والدین کے تعاون سے ہیلتھ ورکرز نے مزید بچوں تک رسائی حاصل کی ہے۔

خیبرپختونخواہ کے انسدادِ پولیو پروگرام کے ترجمان امتیاز علی شاہ کا کہنا ہے،‘‘ہم نے 54 لاکھ بچوں کا ہدف طے کیا جس میں سے 99.9 فیصد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے ہیں۔’’

انہوں نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”گزشتہ دو برسوں میں ویکسینیشن سے انکار کی تعداد کم ہو کر 3,000 خاندانوں تک آ گئی ہے، جو قبل ازاں مقابلتاً 35,000 تھی۔“

انہوں نے مزید بتایا کہ دسمبر 2013 کے بعد دہشت گردوں کے حملوں میں 39 پولیوورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے، تاہم پولیس اور فوج کی بہتر سیکیورٹی کے باعث 2016 میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

انہوں نے بتایا، ‘‘تقریباً 32,000 پولیو ورکرز بلاخوف و خطر ہر ماہ مہم میں شریک ہوتے ہیں۔’’ ‘‘حکومت ہر مہم کے دوران 25 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کرتی ہے۔’’

کے پی ہنگامی آپریشن سیل کے کوآرڈینیٹراکبر خان نے کہا کہ 2016 میں صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے اور اب صوبہ پولیو سے آزادی کی راہ پر گامزن ہے۔

انہوں ںے پاکستان فارورڈ کو بتایا، ‘‘امن وعامہ کی صورتحال میں بہتری، عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن اور انسدادِ پولیو کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم کے باعث لوگوں کو احساس ہوا ہے کہ بچوں کی صحت کیلئے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا ضروری ہے۔’’

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500