خار، باجوڑ ڈسٹرکٹ -- پولیو کے قطرے پلانے کی حالیہ چار روزہ قومی مہم کے دوران، 39 سالہ حضرت ولی شاہ نے شرکت کی جو کہ باجوڑ ڈسٹرکٹ کے شہری ہیں اور جو بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئے تھے۔
باجوڑ ڈسٹرکٹ کے ہیلتھ افسر ڈاکٹر وزیر خان صافی کے مطابق، شاہ نے پیر سے جمعرات (17 سے 20 فروری) تک جاری رہنے والی مہم میں پولیو کے قطرے پلانے والوں کا ساتھ تھا تاکہ ایسے والدین کو رضامند کیا جا سکے جو اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کر رہے تھے۔
صافی نے کہا کہ شاہ نےانتہاپسندوں کے ویکسین مخالف پروپیگنڈاکے خلاف اپنی آواز اٹھائی اور وہ باقاعدگی سے مہمات میں شرکت کرتے ہیں تاکہ پولیو کے بارے میں آگاہی پیدا کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ "حضرت ولی شاہ معاشرے کے لیے قابلِ تلقید ہیں اور انہوں نے ماضی میں بہت سے ذہنوں کو پولیو کے بارے میں صاف کیا ہے کیونکہ منفی پروپیگنڈا نے عوام کو پولیو کے قطروں کے بارے میں گمراہ کر دیا تھا"۔
صافی نے کہا کہ عام شہریوں کو "پولیو کی ٹیموں اور محکمہِ صحت کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ پولیو ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ کر رہی ہے اور پھر انہیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "پولیو کے خاتمے کا واحد طریقہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو قطرے پلانا ہے"۔
باجوڑ کے ایک مذہبی راہنما مفتی حنیف اللہ جان نے کہا کہ "پولیو کے قطرے حلال ہیں اور قطروں میں کوئی بری چیز نہیں ہے۔ ان قطروں کو پاکستان کے ممتاز علماء جیسے کہ مفتی تقی عثمانی اور مرحوم سمیع الحق نے حلال قرار دیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ کے علماء انسدادِ پولیو مہم کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو کامیاب بنائیں۔
دوسروں کی کامیابی میں مدد دینا
شاہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی دوسرے بچے کو اس تکلیف سے نہ گزرنا پڑے جس کا سامنا انہیں اپنے بچپن میں کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "میں اپنے بچپن میں پولیو کا شکار ہو گیا تھا اور اس معذوری کے باعث مجھے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسکول جانا بہت مشکل تھا اور اسکول میرے گاؤں سے بہت دور تھا"۔
شاہ نے کہا کہ "میرے لیے بیساکھیوں کو استعمال کرتے ہوئے چلنا بہت مشکل تھا مگر میں نے کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا"۔
صحت عامہ کے اہلکاروں کے مطابق، گزشتہ 10 سالوں کے دوران، طبی عملے نے باجوڑ ڈسٹرکٹ میں پولیو کے 39 کیس ریکارڈ کیے ہیں۔ 2009 میں 15واقعات، 2010 میں 11، 2011 میں دو، 2012 میں پانچ، 2018 میں پانچ اور 2019 میں ایک واقعہ کی اطلاع ملی۔
شاہ نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ سیکورٹی کی غیریقینی صورتِ حال کے باعث حالیہ سالوں میں باجوڑ میں پولیو کے واقعات میں اضافہ ہوا، کہا کہ "ماضی میں، پولیو کے پھیلنے کی بنیادی وجہ عسکریت پسندوں کو پروپیگنڈا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ "باجوڑ میں امن کی بحالی کے بعد، پولیو کی ٹیمیں آسانی سے میدان میں کام کر رہی ہیں جبکہ ماضی میں وہ قطرے پلانے کے لیے آزادانہ طور پر نقل و حرکت نہیں کر سکتی تھیں"۔
بارہویں جماعت میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد، شاہ کو ان کے گاؤں مومینزو میں پرائمری استاد کے طور پر بھرتی کر لیا گیا۔ 20 سال سے زیادہ کے عرصے تک خدمات سر انجام دینے کے بعد، انہیں ہیڈ ماسٹر متعین کر دیا گیا۔
شاہ نے کہا کہ "پولیو نے میرے پاؤں اور ہاتھوں پر حملہ کیا اور مجھے معذور بنا دیا مگر میرا یقین ہے کہ معذور شخص ایک عام آدمی کے مقابلے میں زیادہ محنتی ہوتا ہے"۔
شاہ نے 2009 میں انجمن بحالی معذوراں قائم کی جو کہ باجوڑ میں معذور شہریوں کی مدد کرنے والی تنظیم ہے۔ ابھی تک اس نے ایسے 2،000 سے زیادہ افراد کی مدد کی ہے۔
شاہ نے کہا کہ "اس تنظیم کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد معذوروں کی مدد کرنا ہے کیونکہ میں نے بچپن اور کم عمری میں معذوری کی تکلیف کو محسوس کیا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ ڈسٹرکٹ میں معذوری کے شکار 7،000 شہری ہیں اور ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ تنظیم موجود نہیں تھی۔ اس لیے میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مدد کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا"۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ 200 ایسے افراد جو معذوری کا شکار تھے، نے تربیت مکمل کی ہے اور وہ ماہر درزیوں کے طور پر اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں، کہا کہ "میں نے ایک مہارت کا مرکز قائم کیا ہے جہاں معذور افراد سلائی کا ہنر سیکھ رہے ہیں"۔
طبی عملے کے لیے سخت سیکورٹی
باجوڑ ڈسٹرکٹ کے پولیو افسر پیر شہاب علی شاہ نے کہا کہ "پولیو کے قطرے پلانے کی چار روزہ مہم باجوڑ میں سخت سیکورٹی کے تحت کامیابی سے منعقد ہوئی"۔
انہوں نے کہا کہ "مہم کی سیکورٹی کے لیے 1,900 پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا"۔
اگرچہ باجوڑ میں قطرے پلانے کی مہم پرامن رہی، عسکریت پسندوں نے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم پر حملے جاری رکھے۔
حکام نے کہا کہ منگل (18 فروری) کو ڈیرہ اسماعیل خان میں سڑک کے کنارے نصب کیے جانے والے اس بم سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دیگر دو زخمی ہو گئے جس کا ہدف پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن تھے۔
ڈسٹرکٹ پولیس چیف واحد محمود نے کہا کہ پولیو کی ٹیم کی نگرانی کرنے والی پولیس وین کو شہر کے مصافات میں نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ "یہ ایک گھریلو ساختہ بم تھا جس میں ہمارا ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا جب کہ دوسرے دو زخمی ہو گئے"۔
مقامی پولیس اہلکار صداقت خان نے ان اعداد و شمار کی تصدیق کی ہے۔
کسی بھی شخص نے فوری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی مگر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے عسکریت پسندوں نے ماضی میں پولیو کے قطرے پلانے والوں کو نشانہ بنایا ہے۔
نامعلوم مسلح افراد نے 29 جنوری کو خیبر پختونخواہ (کے پی) کی صوابی ڈسٹرکٹ میں پولیو کے قطرے پلانے والی دو خواتین کارکنوں کو ہلاک کر دیا۔
'ہم ہر قیمت پر پولیو کا خاتمہ کریں گے'
کے پی کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسف زئی نے 16 فروری کو ایک بیان میں کہا کہ "اگر کوئی اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کرے تو یہ بھی دہشت گردی ہے۔۔۔ حکومت ان کے بچوں کو ساری زندگی کی معذوری سے بچانا چاہتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم اپنے مستقبل کو محفوظ اور صحت مند بنانے اور اپنے بچوں کو معذوری سے بچانے کے لیے پولیو کا ہر قمیت پر خاتمہ کرنا چاہتے ہیں"۔
پولیو کے قطرے پلانے کی ملک گیر مہم کا مقصد 39 ملین بچوں کو قطرے پلانا ہے۔
صافی نے کہا کہ باجوڑ میں، ہمارا ہدف 229،738 کو قطرے پلانا تھا اور اسے ہم نے حاصل کر لیا۔
شوکت نے کہا کہ کے پی میں، حکومت 6۔7 ملین سے زیادہ بچوں کو قطرے پلانے کی متلاشی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے ساتھ ان واحد تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں یہ معذور کر دینے والی بیماری کی وباء ابھی تک موجود ہے۔
حضرت ولی ہمارے ہیرو ہیں۔ زندہ رہو حضرت ولی۔
جوابتبصرے 1