پشاور -- حکام کا کہنا ہے کہ 29 جنوری کو ضلع صوابی میں دو خواتین اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد، خیبرپختونخوا (کے پی) نےپولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کے لیےحفاظتی اقدامات سخت کر دیئے ہیں۔
حکام کے مطابق، نامعلوم مسلح افراد نے 29 جنوری کو پولیو کی ٹیم پر اس وقت فائر کھول دیا جب وہ اپنا کام کر رہی تھی۔
3 فروری کو کے پی انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ثناء اللہ عباسی نے کہا، "پولیو ٹیموں کو حفاظت فراہم کرنے ۔۔۔ کے متعلق تمام علاقائی پولیس سربراہان کے ساتھ ویڈیو مشاورتوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ کے پی پولیس نے بے داغ حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اضلاع میں زیادہ سے زیادہ انسانی وسائل تفویض کیے ہیں۔ جن اضلاع میں افرادی قوت کی کمی تھی وہاں فوری طور پر پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے مزید دستے بھجوا دیئے گئے ہیں۔
صوابی کے ضلعی پولیس افسر عمران شاہد کا کہنا تھا، "ہمیں ہزارہ کے علاقے سے مزید پولیس اہلکار نیز ایف سی مل گئے ہیں، جس کے بعد ہم نے پولیو ٹیموں کے لیے پہرے میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ پولیس نے صوابی میں تمام داخلی اور خارجی مقامات کو مضبوط کر دیا ہے۔
شاہد کا کہنا تھا، "پولیو ٹیموں کی حفاظت کے لیے تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد 560 سے بڑھ کر اب 1،360 ہو گئی ہے"، ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کی ہر ٹیم کے ساتھ دو پولیس افسران اور مردوں کی ہر ٹیم کے ساتھ ایک پولیس افسر کو رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، "پولیو ٹیموں اور عوام کو تحفظ کا ایک احساس فراہم کرنے کے لیے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران گشت میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے"۔
3 برسوں میں 13 حملے ناکام بنائے گئے
ڈی آئی جی پولیس آپریشنز کے پی کاشف عالم کا کہنا تھا، "صوابی کے واقعہ سے قبل، [کے پی میں] پولیس نے گزشتہ تین برسوں میں پولیو ٹیموں پر ہونے والے 13 حملے ناکام بنائے تھے"۔
ان کا کہنا تھا کہ کے پی میں پولیو ٹیموں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں نے گزشتہ تین برسوں میں 17 حملے کیے، جن میں ایک پولیو اہلکار زخمی ہوا تھا، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان واقعات میں تین پولیس اہلکاروں نےاپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
عالم نے کہا، "حکومت کی جانب سے ایک تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائے جانے کے بعد ہم صوابی کے واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ پولیس، مقامی انتظامیہ اور پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے منتظمین کے ساتھ مل کر، ہزاروں پولیو ٹیموں کے لیے حفاظتی اقدامات کا جائزہ اور دوبارہ تخمینہ کاری کرنے جا رہی ہے۔
مقامی عمائدین اور منتخب کردہ اہلکار بھی ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پولیو ٹیموں کے ہمراہ جا رہے ہیں۔
جنوبی پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ناظم، نذیر محمد کا کہنا تھا، "وہ پاکستان سے معذور کر دینے والی بیماری کا خاتمہ کرنے کا عظیم کام انجام دے رہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ مہم میں انہیں ہماری پوری حمایت حاصل ہے"۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کے لیے پوری قوم کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
پاکستان ان صرف تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو ایک وبائی مرض ہے۔
سلام، میں اس ویب سائیٹ پر فضول خبریں دیکھ رہا/رہی ہوں۔ پاکستان کو کور کرنے کے بجائے آپ کا ویب پورٹل کے پی کے سے بے کار خبریں لا رہا ہے، شاید آپ کا دفتر اس صوبہ میں ہے۔ میری تجویز ہے کہ پاکستان فارورڈ سے نام تبدیل کر کے کے پی کے پٹھانز فارورڈ رکھ دیں۔
جوابتبصرے 1