پشاور - طبی پیشہ ور، علماء اور والدین، طالبان کی طرف سے پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں کو ہلاک کیے جانے کی مذمت کر رہے ہیں اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ پاکستانی بچوں کو اس قابلِ انسداد بیماری سے محفوظ رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
تازہ ترین ٹارگٹ کلنگ میں، طالبان کے عسکریت پسندوں نے گیارہ ستمبر کو ڈاکٹر ذکاء اللہ خان کو پشاور میں ہلاک کر دیا۔ یہ پولیو کے قطرے پلانے کو روکنے کے بارے میں ان کے ایجنڈا کا حصہ ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ایک شاخ جماعت الاحرار نے اس ہلاکت کی ذمہ داری لی ہے اور مزید ہلاکتوں کا وعدہ کیا ہے۔
علاوہ ازیں، پولیو کے کارکنوں کے خلاف طالبان کی نہ ختم ہونے والی مہم، قطرے پلانے کے عمل کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور پولیو کے واقعات کی تعداد میں قابل قدر کمی ہوئی ہے۔ یہ بات خیبر پختونخواہ (کے پی) کے قطرے پلانے کے پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر ایوب روز نے بتائی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "عسکریت پسندوں نے 2012 سے کے پی میں پولیو سے متعلقہ دہشت گردی کے واقعات میں چالیس افراد کو ہلاک اور 41 کو زخمی کیا ہے۔ تاہم، قطرے پلانے کی مہم ہموار طریقے سے جاری ہے کیونکہ کوئی خطرہ موجود نہیں ہے اور لوگ طالبان کے پروپیگنڈا کو قبول نہیں کر رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "صوبے میں اس سال ابھی تک سات واقعات سامنے آئے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال اسی دورانیے میں بیس واقعات ہوئے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کی طرف سے قطرے پلانے کو بند کرنے کے مطالبے پر لوگوں نے عمل نہیں کیا ہے"۔
پولیو کے کارکن دھمکیوں کے باوجود ثابت قدم
ذکاء اللہ خان بہادری کی ایک مثال تھے، انہیں عسکریت پسندوں کی طرف سے کئی دفعہ دھمکیاں ملیں مگر وہ گزشتہ دس سال سے پشاور میں پولیو کے کارکنوں کی قیادت کرتے رہے۔ ان کے بیٹے سلیمان نے اپنے والد کی طرف سے اس قابل انسداد بیماری کو ختم کرنے میں ان کے عہد کی تعریف کی۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میرے والد کی شدید خواہش تھی کہ وہ صوبے کو پولیو سے پاک اور بچوں کو صحت مند نشونما پاتا ہوا دیکھیں۔ اس لیے، انہوں نے اکثر ملنے والی دھمکیوں کی پرواہ نہیں کی تھی"۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان کے عسکریت پسند بچوں کو قطروں سے محروم کرنا اور انہیں معذور بنانا چاہتے ہیں مگر انہیں منہ کی کھانی پڑے گی"۔
مئی 2013 میں عسکریت پسندوں نے ایک اور قطرے پلانے والی خاتون زینت شاہ کو ہلاک کر دیا۔ شاہ کی چھوٹی بہن شائستہ بی بی نے قطرے پلانے کی مہم میں اس کی جگہ لے لی۔
بی بی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم قطرے پلانے والوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں اور انہیں تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ ہتھکنڈے کام نہیں کریں گے کیونکہ ہم بچوں کو قطرے پلانا جاری رکھیں گے"۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ وہ اپنی بڑی بہن کی ہلاکت کے باوجود مہم میں حصہ کیوں لے رہی ہیں تو بی بی نے کہا کہ وہ پولیو کے انسداد میں حکومت کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "پولیو بچپن کی بیماریوں میں سے واحد ایسی بیماری ہے جسے قطرے پلانے کی مدد سے دنیا سے مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے"۔
فوج، پولیس قطرے پلانے کی مہم کی حمایت کرتی ہے
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے اعلی پولیو افسر ڈاکٹر اختیار علی پولیو کے خاتمے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر خوش ہیں۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہم پولیو کے ان کارکنوں کی بہادری کی قدر کرتے ہیں جو منڈلاتی ہوئی دھمکیوں کے باوجود اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وزیرستان میں فوجی مہم کا آغاز 2014 میں ہوا تھا جس نے والدین کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے میں مدد کی ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستانی فوج جو کہ فاٹا میں آپریشن میں مصروف ہے، قطرے پلانے والوں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کر رہی ہے جس سے ہم پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں حدف بنائے جانے والے ایک ملین بچوں میں سے 99 فیصد تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا میں 2016 میں پولیو کے صرف دو واقعات درج کیے گئے جب کہ اس کے مقابلے میں 2015 میں 16 اور2014 میں 179 واقعات پیش آئے تھے۔
علی نے کہا کہ "بھرپور سیکورٹی اور کارکنوں کی جانفشانی کے باعث دہشت گردی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ مقامی برادریاں بھی قطرے پلانے کی مہم کی حمایت کر رہی ہیں"۔
کے پی کے وزیرِ صحت شاہرام طارکی نے کہا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہونے پر پولیو کے کارکنوں کو ان کی بہادری پر تعریفی اسناد دے رہی ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "ہر ماہانہ مہم میں، ہم پولیس اور فوجیوں کو تعینات کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ صوبے میں حدف بنائے جانے والے 5.4 ملین بچوں کو قطرے پلائے جا سکیں۔ کچھ جگہوں پر، سیکورٹی کے اہلکار بچوں کو قطرے پلاتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "اس ویکسین کی اہمیت کے بارے میں والدین میں بہت زیادہ آگاہی موجود ہے"۔
بچوں کی حفاظت اسلامی فرض ہے
شمالی وزیرستان ایجسنی کے ایک رہائشی احسان خان نے کہا کہ "میرے بڑے بیٹے نے قطرے نہیں پیئے تھے اور وہ تین سال پہلے معذور ہو گیا"۔
اس نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "طالبان کے عسکریت پسندوں نے اسکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر دیا اور پھر قطرے پلانے پر پابندی لگا دی جس سے بچے معذوریوں کا شکار ہو گئے جو کہ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہے جس میں والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں"۔
انہوں نے کہا کہ "میں وزیرستان میں فوجی مہم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے عسکریت پسندوں کو شکست دی اور قطرے پلانے کی راہ ہموار کی"۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک عالم، مولانا جہانزیب خان نے کہا کہ وہ طبی کارکنوں کو نشانہ بنانے پر عسکریت پسندوں پر غصہ ہے۔
انہوں نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "بچوں کو قطرے پلانے سے انکار کرنا غیر اسلامی ہے۔ ہم بچوں کو قطروں سے محروم کرنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کرتے ہیں اور والدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قطرے پلانے کی مہم کے خلاف عناصر کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے بچوں کو اس بیماری سے بچائیں"۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان کا یہ پروپیگنڈا کہ قطرے پلانے سے بانجھ پن اور نامردی پیدا ہوتا ہے بالکل بے بنیاد ہے"۔
انہوں نے کہا کہ قطروں کو مسلمان ممالک میں ٹیسٹ کیا گیا اور ان میں کوئی عنصر ایسا نہیں تھا جو کئی مسئلہ پیدا کر سکتا۔ بین الاقوامی برادری نے انہی قطروں کو استعمال کرتے ہوئے دنیا سے پولیو کا خاتمہ کیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "ہم حکومت کی طرف سے پولیو کے خاتمے سے ہمارے بچوں کو بیماریوں سے پاک کرنے اور پاکستان کو صحت مند افراد کی مدد سے خوشحال ملک بنانے کی مکمل حمایت کرتے ہیں"۔