پشاور -- گلوبل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے 278 ایسے لنکس کو بلاک کر دیا ہے جن میں ایسا گمراہ کن مواد موجود تھا جو تشددکو بھڑکانے والا تھا اورپاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کے بارے میں جھوٹی معلومات پھیلا رہے تھے۔
یہ قدم پاکستان کی حکومت کی طرف سے ایک درخواست کے بعد اٹھایا گیا جس میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر زور دیا گیا تھا کہ وہ ایسے ضرر انگیز مواد کو ہٹا دیں جو پولیو کے خاتمے کے اقدامات کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی قطرے پلانے والوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند کئی سالوں سے جھوٹی معلومات اور جہالت کی ایک ایسی مہم کا حصہ رہے ہیں جس کا مقصد پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو نقصان پہنچانا ہے۔
اسلام آباد میں قومی ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے پولیو کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر افتخار فردوس نے کہا کہ "پاکستان نے جھوٹی خبروں اور ویڈیوز کے پھیل جانے کے بعد،سوشل میڈیا پر پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف بدخوانہ مواد پر کریک ڈاون کرنے کا فیصلہ کیا"۔
انہوں نے کہا کہ اس مواد میں دعوی کیا گیا ہے کہ "22 اپریل کو پولیو کے خلاف قطرے پلانے کی ایک مہم کے دوران قطرے پینے کے بعد، بہت سے بچے ہلاک ہو گئے اور ہزاروں بے ہوش ہو گئے"۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "اس افواہ سے ہزاروں والدین میں تشویش پھیل گئی جس کا نتیجہ زیادہ بڑی تعداد میں قطرے پلانے سے انکار اور ایک ماہ کے اندر ملک میں قطرے پلانے والے تین کارکنوں کی ہلاکت کی صورت میں نکلا"۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مواد کو شناخت کرنے اور ان کی رپورٹ کرنے میں مدد کر رہی ہے۔
جھوٹی افواہوں سے افراتفری پھیل گئی
ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/ آر ایل) نے خبر دی ہے کہ بدامنی ان افواہوں کے ساتھ پھیلنا شروع ہوئی کہ پولیو کے قطرے پینے والے بچے بیمار ہو گئے ہیں۔ پھر مسجدوں سے علماء نے لاوڈاسپیکروں سے والدین کو متنبہ کیا کہ وہ طبی کارکنوں کو قطرے نہ پلانے دیں۔
تشویش کے شکار والدین اپنے بچوں کو لے کر ہسپتالوں اور طبی کلینکوں کی طرف بھاگے اور ایک ہجوم نے پشاور کے باہر ایک کلینک کو جلا دیا۔
طبی حکام کے مطابق، ہسپتالوں میں لائے جانے والے 25,000 بچوں میں سے چند کو ہی متلی اور پیٹ میں درد کی شکایت تھی۔ کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
انسداد پولیو کی مہم سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں نے وضاحت کی کہ کچھ بچے قطرے پینے کے بعد بیمار کیوں ہو سکتے ہیں۔
امیونائزئشن کے بارے میں کے پی کے توسیعی پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکرم شاہ نے آر ایف ای/ آر ایل کو بتایا کہ "ہم نے وٹامن اے شامل کیا کیونکہ اس سے مدافعتی نظام مضبوط ہو جاتا ہے اور قطروں کو زیادہ موثر بنانے میں مدد ملتی ہے"۔
صوبائی شعبہ صحت میں انسدادِ پولیو مہم کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر شبیر احمد نے کہا کہ تاہم خالی پیٹ قطرے پینے سے وٹامن اے سے متلی اور پیٹ میں درد ہو سکتا ہے۔
جھوٹی معلومات کو کم کرنے کا "پورا عہد"
یونیسیف خیبر پختونخواہ (کے پی) کے ترجمان شاداب یونس نے کہا کہ "پاکستان نے ابھی تک 510 لنکس کو بلاک اور ختم کیے جانے کی درخواستیں دی ہیں جن میں سے 278 کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ باقی کے لنکس پر کام جاری ہے"۔
انہوں نے کہا کہ حکام نے فیس بک سے کہا ہے کہ وہ 270 اکاونٹس کو بند کر دے اور اس نے ابھی تک 227 کو بلاک کر دیا ہے۔ ٹوئٹر نے 135میں سے 15 اکاونٹس بلاک کر دیے ہیں۔ یو ٹیوب نے 36 لنکس بلاک کر دیے ہیں اور مزید 54 کو روکنے کا کام ابھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیلی موشن پر 10 لنکس اور بلاگ سپاٹ پر 5 کو بلاک کرنے کی درخواستوں پر قدم اٹھائے جانے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
یونس نے کہا کہ "کریک ڈاون جاری ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پولیو کے قطروں کے خلاف تمام نفرت انگیز مواد سوشل میڈیا سے ختم نہیں کر دیا جاتا"۔
پولیو کے خاتمے کے لیے وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن بابر بن عطاء نے کہا کہ پشاور کے واقعہ نے ملک بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف برادری کی سطح پر مزاحمت کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے اور عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف کے ملکی ڈائریکٹروں نے فیس بک کی گلوبل ریگولیٹری اینڈ کانٹینٹ مینجمنٹ ٹیم کے ساتھ "گہری اور ثمر آور" کانفرنس ہوئی۔ یہ بات عطاء نے ٹوئٹ کی۔
انہوں نے 8 مئی کو ٹوئٹ کیا کہ فیس بک "اپنے قواعد اور پالیسی کی گائڈ لائنز کے مطابق پروپیگنڈا مواد جس میں پیجز بھی شامل ہیں، کو ہٹانے کے لیے تیار ہے"۔
عرب نیوز نے 9 مئی کو خبر دی ہے کہ فیس بک نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے اس بیماری کے خاتمے کے لیے پاکستان کی آخری کوششوں کے دوران، وہ پولیو کے انسداد کی مہم کے بارے میں غلط معلومات کو کم کرنے کا "پورا عزم" رکھتا ہے۔
فیس بک کے ایک ترجمان نے عرب نیوز کو بتایا کہ "ہم پاکستان میں اپنی برادری کی حفاظت کا مکمل عزم رکھتے ہیں اور اپنے پلیٹ فارم پر قطرے پلانے کے بارے میں جھوٹی معلومات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں"۔
بچوں کو پولیو سے بچانا
دریں اثناء، کے پی کی نجی اسکول ریگولیٹری اتھارٹی نے ایسے بہت سے اسکولوں کے خلاف 29 مئی کو قدم اٹھایا جو پروپیگنڈا اور ایسے جھوٹے دعوی پھیلا رہے تھے کہ بچے قطرے پینے کے بعد بیمار ہو گئے ہیں۔
حکام نے کے پی کے چیف سیکریٹری محمد سلیم خان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے 10 اسکولوں کو بند کر دیا۔
پشاور چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹریز کے سابقہ صدر احتشام حلیم نے کہا کہ ایسے اقدامات کرنا ناگزیر ہے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "میرے بہت سے اہلِ خاندان اور دوست قطروں کے بارے میں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور جھوٹی ویڈیوز اور ان جھوٹی خبروں کے بعد کہ بہت سے بچے پشاور میں ہلاک ہوئے ہیں، پریشانی کا شکار ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "اگر ہم پاکستان کو پولیو کی وباء سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور اس معذور کر دینے والی بیماری سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں زیادہ سخت اقدامات کرنے ہوں گے"۔