صحت

عالمی رہنماؤں کا چین سے کورونا وائرس کی وباء پر شفافیت کا مطالبہ

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

11 اپریل کو ووہان، چین میں خطرات سے بچاؤ کا لباس پہنے سیکیورٹی اہلکار ووہان لئی شن شان ہسپتال کے سامنے کھڑے ہیں۔ [نوئل کیلس / اے ایف پی]

11 اپریل کو ووہان، چین میں خطرات سے بچاؤ کا لباس پہنے سیکیورٹی اہلکار ووہان لئی شن شان ہسپتال کے سامنے کھڑے ہیں۔ [نوئل کیلس / اے ایف پی]

برلن -- جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے سوموار (20 اپریل) کے روز چینی حکومت سے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے متعلق ہر ممکن حد تک شفاف رہنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ بیجنگ کو اس کے بحران کو سنبھالنے کے معاملے پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔

ناقدین نے چین پر الزام لگایا ہے کہ گزشتہ برس کے اختتام پر جب یہ وباء پہلی بار پھوٹی تھی تو اس نے وباء کے پیمانے اور اس کی صلاحیت کو گھٹا کر پیش کیا تھا، جبکہ نظریات کا قیاس ہے کہ وائرس ایک لیب سے خفیہ طور پر نکلا ہوا ہو سکتا ہے۔

مرکل نے وباء کے ابتدائی ایام کے متعلق مزید معلومات کا مطالبہ کیا ہے، جو ووہان، چین سے شروع ہوئی تھی۔

سوموار کے روز برلن میں مرکل نے صحافیوں سے کہا، "مجھے یقین ہے کہ چین وائرس کی ابتداء کی کہانی کے متعلق جتنی زیادہ شفافیت اپنائے گا، دنیا میں ہر ایک کے لیے اس سے سبق سیکھنے کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔"

چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ غالب امکان ہے کہ وائرس انسانوں میں پہلی بار جانوروں کی ایک منڈی سے منتقل ہوا جہاں دکاندار جنگلی جانور فروخت کرتے تھے۔

یہ نظریات کہ وائرس ووہان میں انتہائی زیادہ پہرے والی وائرولوجی لیب سے نکلا تھاامریکی حکام، بشمول وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو، کی جانب سے اٹھائے جاتے رہے ہیں، جن کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ایک تحقیقات جاری ہیں کہ وائرس "دنیا میں کیسے آیا"۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پچھلے ہفتے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ یہ "بچگانہ" سوچ ہو گی کہ چین نے عالمی وباء کو بخوبی سنبھالا تھا، ان کا مزید کہنا تھا: "واضح طور پر ایسی چیزیں وقوع پذیر ہوئی ہیں جن کے متعلق ہم نہیں جانتے۔"

برطانیہ میں، خارجہ سیکریٹری ڈومینک راب نے کہا کہ چین کو کورونا وائرس کی وباء کے متعلق "سخت سوالات" کا سامنا کرنا پڑے گا، مثلاً "یہ کیسے باہر آیا اور اسے شروع میں ہی کیسے نہ روکا جا سکا"۔

دریں اثناء، آسٹریلیا نے عالمی وباء پر بین الاقوامی ردِعمل پر ایک آزادانہ تحقیق کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ملک ایک ایسے جائزے پر "اصرار" کرے گا جو، جزوی طور پر، چین کے عالمی وباء پر ردِعمل کی چھان بین کرے گا۔

بے عملی

چینی حکام کو شروع میں وباء کے متعلق گھٹا کر بیان کرنے پر موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے، اور گزشتہ ہفتے ووہان نے حکام نے اپنی اموات کی تعداد میں غلطی کا اعتراف کیا تھا اور مرنے والوں کی تعداد میں 50 فیصد کا اضافہ کیا تھا۔

15 اپریل کو ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے کہا کہ تقریباً ایک ہفتہ طویلعوامی خاموشی جو چینی حکام کی جانب سے کووڈ-19 کورونا وائرس پر اختیار کی گئی، دنیا کو عالمی وباء کو جڑ سے ختم کرنے کے امکان سے محروم کر گئی.

خفیہ طور پر چینی حکام کو احساس ہوا ہے کہ مہلک وباء پھیلی تھی؛ تاہم، انہوں نے ووہان کو ایک بہت بڑا میلہ منعقد کرنے کی اجازت دے دی جس میں دسیوں ہزاروں لوگ شریک ہوئے، جس سے وائرس ہر طرف پھیل گیا۔

تاخیر چھ دن تک چلی -- 14 سے 19 جنوری تک۔ اے پی کی جانب سے حاصل کردہ اندرونی دستاویزات اور ماہرین کے اندازوں کے مطابق، آخرکار صدر شی ین پنگ نے 20 جنوری کو عوام کو خبردار کیا، مگر اس وقت تک خاموشی کے اس عرصے کے دوران کم از کم 3،000 افراد متاثر ہو چکے تھے۔

چین سے، وائرس پورے کرۂ ارض پر پھیل گیا، جس سے زندگی درہم برہم ہو گئی اور بے حساب انسانی اور معاشی نقصان ہو گیا۔

منگل (21 اپریل) تک، دنیا بھر میں کورونا وائرس کے 2.4 ملین کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ 170،000 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

چین کو نیچا دکھانے کے لیے بھارت اور امریکہ کی مشترکہ کاوشوں سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

جواب