صحت

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کا چین سے کووڈ کے ماخذ کی تحقیق میں شفافیت کا مطالبہ

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

8 مئی کو کھینچی گئی ایک تصویر میں کووڈ-19 کوروناوائرس کی عالمی وباء کے دوران عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا نشان جنیوا میں اس کے ہیڈکوارٹرز کے داخلی راستے پر لگا ہوا دکھایا گیا ہے۔ [فیبریس کوفرینی/اے ایف پی]

8 مئی کو کھینچی گئی ایک تصویر میں کووڈ-19 کوروناوائرس کی عالمی وباء کے دوران عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا نشان جنیوا میں اس کے ہیڈکوارٹرز کے داخلی راستے پر لگا ہوا دکھایا گیا ہے۔ [فیبریس کوفرینی/اے ایف پی]

چین عالمی وباء کے ماخذوں پر ہونے والی ایک بین الاقوامی تحقیق کو دھندلا رکھنا جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ صحت کے عالمی حکام نے زیادہ شفافیت کا مطالبہ کیا ہے۔

دسمبر 2019 میں ووہان کے اندر کووڈ-19 کے پہلے کیسز کا پتہ چلنے کے بعد سے، چین سے باہر آنے والی معلومات انتہائی دھندلی رہی ہیں۔

ناقدین نے بیجنگ پر وباء کے پہلی بار پھوٹنے پر اس کے پیمانے اور حد کو گھٹا کر بتانے کا الزام عائد کیا ہے، جبکہ کچھ ماہرینِ نظریہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ وائرس ووہان کے ادارۂ وبائیات (ڈبلیو آئی وی) سے فرار ہوا ہو سکتا ہے.

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ تیدروس ادھانوم گیبریئیسس نے جمعرات (15 جولائی) کے روز خام کوائف تک مزید رسائی کا مطالبہ کرتے ہوئے، چین پر زور دیا کہ وہ عالمی وباء کے ماخذوں پر ہونے والے تحقیقات کے اگلے مرحلے میں مزید تعاون کرے۔

ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے کووڈ-19 کوروناوائرس کے ماخذوں پر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد، ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے رکن پیٹر بین ایمبارک (درمیان میں) اور گروپ کے دیگر ارکان 10 فروری کو چین کے صوبہ ہیوبائی میں ووہان سے روانہ ہونے کے لیے تیانے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے کووڈ-19 کوروناوائرس کے ماخذوں پر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد، ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے رکن پیٹر بین ایمبارک (درمیان میں) اور گروپ کے دیگر ارکان 10 فروری کو چین کے صوبہ ہیوبائی میں ووہان سے روانہ ہونے کے لیے تیانے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

کووڈ-19 کوروناوائرس کے ماخذوں پر تحقیقات کرنے والی ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے ارکان 3 فروری کو چین کے صوبہ ہیوبائی میں ووہان کے اندر واقع ووہان ادارہ برائے وبائیات سے رخصت ہوتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

کووڈ-19 کوروناوائرس کے ماخذوں پر تحقیقات کرنے والی ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے ارکان 3 فروری کو چین کے صوبہ ہیوبائی میں ووہان کے اندر واقع ووہان ادارہ برائے وبائیات سے رخصت ہوتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، تیدروس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کووڈ-19 ڈبلیو آئی وی کی کسی لیب سے فرار ہوا ہو سکتا ہے، کو مکمل طور پر خارج از امکان قرار دینے کی سابقہ کوشش "قبل از وقت" تھی۔

انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کووڈ-19 کے ماخذوں پر تازہ تحقیقات میں آگے بڑھنے کے لیے بنیاد رکھ رہا تھا، ان کا مزید کہنا تھا، "ہمیں امید ہے کہ جو کچھ ہوا اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں بہتر تعاون ملے گا"۔

اقوامِ متحدہ کے صحت کے ادارے کو کووڈ-19 کے ماخذوں پر ایک نئی، زیادہ گہری تحقیقات کرنے کے لیے شدید تر ہوتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے.

ڈبلیو ایچ او جنوری میں ہی آزاد، بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم ووہان بھیجنے میں کامیاب رہا تھا، جو کہ سنہ 2019 کے آخر میں وہاں کووڈ-19 کے سامنے آنے کے ایک سال سے زیادہ عرصے بعد گئی تھی۔

جمعرات کے روز تیدروس نے کہا کہ تحقیقات کے پہلے مرحلے کے دوران بنیادی دشواریوں میں سے ایک دشواری خام کوائف تک رسائی تھی۔۔۔ خام کوائف کا اشتراک نہیں کیا گیا تھا.

"اور اب ہم نے مطالعہ کا دوسرا مرحلہ تیار کر لیا ہے، اور ہم دراصل چین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ شفاف رہے، کشادہ دلی دکھائے اور تعاون کرے، خصوصاً ۔۔۔ خام کوائف پر جو ہم نے عالمی وباء کے ابتدائی ایام میں مانگے تھے۔"

تحقیقات کے پہلے مرحلے کے بعد بہت دیر تک تاخیر کا شکار ہونے والی رپورٹ گزشتہ مارچ میں شائع ہوئی تھی اور اسے لیب سے لیک ہونے کے خیال کو زیادہ گہرائی سے نہ جانچنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا -- رپورٹ کے مصنفین نے اس پر گفتگو کرنے اور اسے مسترد کرنے کے لیے محض 440 الفاظ استعمال کیے تھے۔

تیدروس، جنہوں نے رپورٹ کی اشاعت کے فوراً بعد ہی زور دیا تھا کہ تمام نظریات سامنے رہے ہیں، جمعرات کے روز اس بات کا اعادہ کیا کہ لیب سے لیک ہونے کے مفروضے پر مزید تحقیات کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا اس نظریئے کو خارج از امکان قرار دینے کی "قبل از وقت کوشش ہوئی تھی"۔

"ہمیں معلومات چاہیئیں، براہِ راست معلومات اس بارے میں کہ عالمی وباء کے شروع میں، پہلے ان لیبز کی صورتحال کیا تھی۔"

'دھوکہ دہی کی ثقافت'

تازہ ترین انکار اس وقت ہوئے تھے جب جنوری میں امریکی وزارتِ خارجہ نے ڈبلیو آئی وی پر "خفیہ عسکری سرگرمی" میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

15 جنوری کو شائع ہونے والے ایک حقائق نامے میں اس کا کہنا تھا، "ایک سال سے زائد عرصے سے، چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے کووڈ-19 کی عالمی وباء کے ماخذ کی شفاف اور مکمل تحقیقات میں منظم انداز سے رخنہ ڈالا، بجائے تعاون کرنے کے اس نے دھوکہ دہی اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے وسیع وسائل وقف کرنے کا انتخاب کیا"۔

اس کا کہنا تھا، "سی سی پی کے رازداری اور تسلط رکھنے کے مہلک خبط کی قیمت چین اور دنیا بھر میں عوامی صحت سے ادا ہوئی ہے"۔

امریکی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا، "ڈبلیو آئی وی نے چینی فوج کے ساتھ مطبوعات اور خفیہ منصوبوں میں اشتراک کیا ہے۔ ڈبلیو آئی وی کم از کم سنہ 2017 سے چینی فوج کی ایماء پر، خفیہ تحقیق، بشمول لیبارٹری میں جانوروں پر تجربات میں ملوث رہی ہے۔"

ڈبلیو آئی وی پر از سرِ نو توجہ ڈاکٹر شی ژینگ لی، چوٹی کی چینی ماہرِ وبائیات جو ڈبلیو آئی وی کے ابھرتی ہوئی انفیکشن والی بیماریوں کے مرکز کی ڈائریکٹر ہیں، کو سامنے لے کر آئی ہے۔

این بی سی نیوز نے خبر دی کہ اگرچہ انہوں نے جون میں نیویارک ٹائمز کے ساتھ ایک نادر، اچانک گفتگو کے دوران چینی فوج کے ساتھ کسی بھی تعلق کی تردید کی تھی، شی کے عسکری حکام کے ساتھ کئی طرح کے روابط ہیں۔

انہوں نے اور دیگر سائنسدانوں نے سنہ 2018 کے موسمِ بہار میں چینی عسکری سائنسدان ٹونگ ژی گانگ اور دسمبر 2019 میں ژو یوسین کے ساتھ کورونا وائرس پر تحقیق میں تعاون کیا تھا۔

دی ویک اینڈ آسٹریلین نے خبری دی تھی کہ ژو، پیپلز لبریشن آرمی کے ایک عسکری سائنسدان، نے 24 فروری 2020 کو -- بیجنگ کے انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے وائرس کا اعتراف کرنے کے محض پانچ ہفتے بعد -- کوروناوائرس کی ویکسین اپنے نام رجسٹر کروانے کے لیے درخواست دی تھی۔

اس انکشاف سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ بے نام ویکسین چینی حکومت کی جانب سے کووڈ-19 کی وباء کے سرِعام اعتراف سے بھی پہلے جانچی جا رہی تھی۔

ایک اور پُراسرار واقعہ میں، ژو کا مئی 2020 میں نامعلوم حالات میں انتقال ہو گیا تھا۔ ژو کے ڈبلیو آئی وی کے ساتھ رابطوں کے حامل ایک انعام یافتہ عسکری سائنسدان کے طور مرتبے کے باوجود، چینی ذرائع ابلاغ نے اس کی موت کی اطلاع نہیں دی اور اس کے "ہیروآنہ" کام کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ شائع کیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شی اور ژو کے درمیان مضبوط عملی تعلق -- اور ژو کی موت کے بارے میں حکومتی خاموشی -- اس نظریئے کو تقویت دیتے ہیں کہ ڈبلیو آئی وی "خفیہ عسکری سرگرمی" میں مشغول تھی۔

امریکی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق تفتیش کار، ڈیوڈ آشر نے این بی سی نیوز کو بتایا، "میں بہت پُراعتماد ہوں کہ فوج ایک خفیہ پروگرام میں سرمایہ لگا رہی تھی جس میں کوروناوائرس ملوث تھا۔ میں نے یہ بات کئی غیر ملکی محققین سے سنی تھی جنہوں نے اس لیب میں موجود محققین کو عسکری لیب کے کوٹ پہنے ہوئے دیکھا تھا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500