صحت

جنوری میں بیجنگ کی جانب سے پردہ ڈالے جانے کی وجہ سے کووڈ-19 بلاخیزی کے ساتھ پھیلا

پاکستان فارورڈ

2019 کی اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ سالِ نو کی تقریبات کے بعد وُوہان میں ریلوے سٹیشن پر ہزاروں مسافر اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی غرض سے اپنی ریل پکڑنے کے لیے داخل ہو رہے ہیں۔ جنوری 2020 میں چینی حکام نے شہر میں مہلک کووڈ-19 سے متعلق آگاہ ہونے کے باوجود اسی میلے کو جاری رکھنے کی اجازت دی۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

2019 کی اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ سالِ نو کی تقریبات کے بعد وُوہان میں ریلوے سٹیشن پر ہزاروں مسافر اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی غرض سے اپنی ریل پکڑنے کے لیے داخل ہو رہے ہیں۔ جنوری 2020 میں چینی حکام نے شہر میں مہلک کووڈ-19 سے متعلق آگاہ ہونے کے باوجود اسی میلے کو جاری رکھنے کی اجازت دی۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

بیجنگ – ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے رواں ہفتے خبر دی کہ کووڈ-19 پر چینی حکام کی جانب سے تقریباً ایک ہفتے کی عوامی خاموشی کی قیمت دنیا کو اس وبا کو جڑ میں ہی ختم کر دینے کے ایک موقع سے ہاتھ دھونے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔

چینی حکام نے خفیہ طور پر ادراک کر لیا کہ ایک مہلک وبا پھوٹ پڑی ہے؛ تاہم انہوں نے اس کے مرکزی شہر وُوہان کو ایک بڑے پیمانے کی ضیافت کی میزبانی کی اجازت دی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کر کے اس وائرس کو ہر سو پھیلا دیا۔

یہ توقف چھ روز – جنوری 14 تا 19 -- جاری رہا۔ بالآخر صدر ژی جنپنگ نے 20 جنوری کو عوام کو متنبہ کیا لیکن اے پی کی حاصل کردہ داخلی دستاویزات اور ماہرانہ اندازوں کے مطابق خاموشی کے اس عرصہ میں تقریباً 3,000 افراد متاثر ہو چکے تھے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلیز میں ایک ماہرِ وبائی امراض ژاؤ-فینگ ژہانگ نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "اگر وہ چھ روز قبل کاروائی کر لیتے، تو مریض بہت کم ہوتے اور طبّی سہولیات کافی ہوتیں۔"

11 اپریل، 2020 کو وُوہان، چین میں کروناوائرس مریضوں کے لیے بستر پیش کرنے والے ایک ہسپتال کی ایک دیوار پر چین کے صدر ژی جنپنگ کی تصویر کے سامنے ایک شخص چل رہا ہے۔ [نوئل سیلِس/اے ایف پی]

11 اپریل، 2020 کو وُوہان، چین میں کروناوائرس مریضوں کے لیے بستر پیش کرنے والے ایک ہسپتال کی ایک دیوار پر چین کے صدر ژی جنپنگ کی تصویر کے سامنے ایک شخص چل رہا ہے۔ [نوئل سیلِس/اے ایف پی]

یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے جب اس امر سے متعلق شواہد بڑھ رہے ہیں کہیہ وائرس وُوہان کی ایک تجربہ گاہ سے حادثاتی طور پر نکلا جو غیر محفوظ حالات میں چمگادڑوں کے کرونا وائرس پر خطرناک تحقیق کر رہی تھی، نہ کہ بیجنگ کے مطابق ایک مرطوب بازار سے۔

شفافیت کا فقدان

یہ چھ روزہ توقف ان دو ہفتوں کے درمیان شروع ہوا جن میں چین کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) نے مقامی حکام سے کسی واقع کا اندراج نہیں کیا، جبکہ ملک بھر میں 5 تا 17 جنوری کو کووڈ-19 کے ہزاروں مریض ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔

مشاہدین نے کہا کہ اطلاعات، بیوروکریسی پر بیجنگ کے سخت کنٹرول اور بری خبر اوپر بھیجنے میں ہچکچاہٹ نے بروقت تنبیہ کو روک دیا۔

یالے یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنٹسٹ ڈینیئل میٹِنگلے نے اس امر کا حوالہ دیتے ہوئے، کہ کیسے ژی کی آمریت پسند حکومت نےحکام کو روکا، کہا، "اس نے ان حکام کی ملازمتیں زیادہ داؤ پر لگا رکھی تھیں، جس کی وجہ سے وہ کچھ نیا کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔"

چینی حکام نے اس وقت حرکت کا آغاز کیا جب 13 جنوری کو چین سے باہر تھائی لینڈ میں پہلے واقع کی تشخیص ہوئی۔

چینی حکام عوام میں اپنا منہ بند رکھے ہوئے خفیہ طور پر اس وبا کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کر رہے تھے، لیکن چینی عوام اور دیگر ممالک کو مطلع نہ کرنے سے ان کے اقدامات کی اثرانگیزی محدود ہو گئی۔

ملک کے قومی صحت کمیشن کے وزیر ما ژاؤوی نے 14 جنوری کو صحت کے صوبائی حکام سے ایک خفیہ ٹیلی کانفرنس منعقد کی۔

اس ٹیلی کانفرنس کے جواب میں چینی سی ڈی سی نے 15 جنوری کو ایک اعلیٰ سطحی ایمرجنسی رسپانس کا آغاز کیا۔ اس نے صحت کے صوبائی حکام کو اے پی کی جانب سے موصول ہونے والی 63 صفحوں پر مشتمل خفیہ ہدایات جاری کیں۔

تاہم، عوام کے سامنے حکام نے اس خدشہ کو کم کر کے ظاہر کیا۔

چینی سی ڈی سی ایمرجنسی سنٹر کے سربراہ لی کن نے 15 جنوری کو چینی ریاستی ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم اس تازہ ترین اتفاقِ رائے پر پہنچے ہیں کہ انسان سے انسان کو ترسیل کے خدشات کم ہیں۔"

بالآخر 20 جنوری کو ژی نے عوام کو بتایا کہ اس وبا کو "سنجیدگی سے لینا ہو گا"۔

بعد ازاں ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ اگر حکومت نے عوام پر ایک ہفتہ قبل معاشرتی فاصلے، ماسک پہننے اور سفری پابندیوں کے لیے زور دیا ہوتا تو واقعات کی تعداد دو تہائی تک کم ہو جاتی۔

بلاخیز توقف

بیجنگ کی جانب سے ایک بلاخیز خاموشی نے واقعات میں ایک دھماکہ کا بیج بو دیا۔

وُوہان کے واقعات کی تعداد میں فوری طور پر اور تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا – 17 جنوری کو 4، 18 جنوری کو 17، اور 19 جنوری کو 136۔

چین سے یہ وائرس پورے سیارے پر پھیل گیا، جس سے زندگی درہم برہم ہو گئی اور بے مثال انسانی اور معاشی نقصانات کا باعث بنا۔ جمعہ (17 اپریل) سے طبی عملہ نے دنیا بھر میں 2,165,500 واقعات بشمول 145,705 اموات کا اندراج کیا۔

چین میں کووڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے بعد بیجنگزیرِ فقدان طبی آلات فروخت کرنے لگااوراس وبا کے آغاز سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانےمیں مصروفِ عمل ہو گیا۔

یہاں تک کہ تین ماہ بعد بھی، بیجنگ ابھی تک کووڈ-19 پر شفافیت سے احتراز کر ہا ہے۔ جیسا کہ اے ایف پی نے خبر دی کہ 17 اپریل کو وُوہان نے اچانک ہی شہر بھر میں کرونا وائرس سے ہونے والی اموات کو 1,290 سے بڑھا دیا۔ اس درستگی سے شہر میں اموات کی کل تعداد 3,869 تک پہنچ گئی۔

تاہم، اس سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ چین میں کووڈ-19 سے مزید کتنی اموات کی اطلاع نہیں دی گئی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500