صحت

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آزمائی ہوئی کے پی پولیس، کی توجہ کووڈ -19 پر

ظاہر شاہ شیرازی

شانگلہ ڈسٹرکٹ میں 3 اپریل کو، پولیس کے سپاہیوں نے کووڈ -19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ وردیاں پہن رکھی ہیں۔ [کے پی پولیس]

شانگلہ ڈسٹرکٹ میں 3 اپریل کو، پولیس کے سپاہیوں نے کووڈ -19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ وردیاں پہن رکھی ہیں۔ [کے پی پولیس]

پشاور -- خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس افسران کئی دیہائیوں تک دہشت گردی کو دبانے کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ اب، وہ ایک نئے اور نظر نہ آنے والے دشمن سے جنگ کر رہے ہیں: کورونا وائرس

اپنے معمول کے گشت کے علاوہ، کے پی پولیس اب نگرانی سے لے کر قرنطینہ کو نافذ کرنے کے فرائض انجام دے رہی ہے تاکہ علاقے سے اس وباء کا خاتمہ کیا جا سکے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 سے مقامی شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا عزم غیر متزلزل ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی سالوں تک اگلے محاظ پر لڑنے کا تجربہ، اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے خلاف جنگ میں بہت کارآمد ہو گا۔

کے پی پولیس مردان کے سپریٹنڈنٹ، وقار عظیم نے ان کےعزم کی مثال دی۔

پولیس کے سپاہی ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ میں 3 اپریل کو، کووڈ -19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ وردیاں پہنے ہوئے ہیں۔ [کے پی پولیس]

پولیس کے سپاہی ایبٹ آباد ڈسٹرکٹ میں 3 اپریل کو، کووڈ -19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ وردیاں پہنے ہوئے ہیں۔ [کے پی پولیس]

خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی 3 اپریل کو ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہو رہے ہیں تاکہ صوبہ میں لاک ڈاؤن اور کووڈ -19 کے قرنطینہ مراکز کا جائزہ لے سکیں۔ [کے پی پولیس]

خیبر پختونخواہ کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناء اللہ عباسی 3 اپریل کو ایک ہیلی کاپٹر پر سوار ہو رہے ہیں تاکہ صوبہ میں لاک ڈاؤن اور کووڈ -19 کے قرنطینہ مراکز کا جائزہ لے سکیں۔ [کے پی پولیس]

پشاور میں درزی، 8 اپریل کو طبی عملے اور سیکورٹی کے اہلکاروں کے لیے حفاظتی سوٹ بنا رہے ہیں۔ [شہباز بٹ]

پشاور میں درزی، 8 اپریل کو طبی عملے اور سیکورٹی کے اہلکاروں کے لیے حفاظتی سوٹ بنا رہے ہیں۔ [شہباز بٹ]

وقار خود اس وقت اس مرض کا شکار ہو گئے تھے جب انہوں نے مقامی افراد کے ایک گروہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جو اس وقت غصے میں آ گیا تھا جب 79 سے زیادہ شہریوں کے، گاؤں میں اس بیماری کے لیے نتائج مثبت آئے تھے۔

اس وائرس سے صحت یاب ہونے کے بعد، عظیم واپس اپنی ڈیوٹی پر آ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "میرے پاس باہر جا کر لوگوں کو اس وائرس سے محفوظ رکھنے کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے اس لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں اور میرے آدمی باہر نکل کر کووڈ -19 کے خلاف جنگ کر رہے ہیں مگر ہماری جنگ کو لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔ انہیں گھروں پر رہنے کی ضرورت ہے اور سماجی طور پر فاصلے کو قائم رکھنا ہو گا"۔

پشاور کے علاقے حیات آباد میں قرنطینہ کے ایک مرکز پر تعینات مراد خان نے اس بات پر اعتماد کا اظہار کیا کہ ان کا اور ان کے ساتھیوں کے دہشت گردی سے جنگ کرنے کے تجربہ کا مطلب ہے کہ وہ اس وائرس کے خلاف جنگ کو جیتنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "کے پی پولیس نے دہشت گردوں سے جنگ کی اور انہیں شکست دی اور ہم اس وائرس کو مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ہم بالکل بھی خوف زدہ نہیں ہیں"۔

'ہمارا مشن صرف جیتنا ہے'

خان نے کہا کہ "ماضی میں، عوام کی مدد کے ساتھ ہم جیت گئے تھے اور ایک بار پھر ہمیں اس وائرس کو شکست دینے کے لیے ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم سڑکوں پر ہیں، اس کے آگے، کووڈ -19 کے مریضوں کے لیے قرنطینہ کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر ہمیں کوئی ڈر نہیں ہے"۔

ایک اور پولیس اہلکار صدیق خان جو کہ پشاور کے علاقے کینٹ میں قیوم سپورٹس کامپلکس کے قریب ایک چوکی پر تعینات ہیں، نے کہا کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے مختلف نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر، پولیس کو کبھی علم نہیں ہوتا تھا کہ کس گاڑی میں ممکنہ طور پر کوئی خودکش بمبار ہو گا۔اب انہیں پتہ نہیں ہے کہ کس گاڑی میں ممکنہ طور پر کووڈ -19 کا وائرس رکھنے والا شخص ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ "میں اس وائرس کو سفر کرنے نہیں دوں گا اس لیے یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اسے روکوں اور انسانیت کو بچاؤں۔ ہمارا مشن صرف جیتنا ہے۔ اس جنگ کو ہارنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے"۔

اس جنگ میں مدد کرنے کے لیے، کے پی پولیس خصوصی طور پر تیار کردہ سامان استعمال کر رہی ہے۔

کے پی پولیس چیف ثناء اللہ عباسی نے کہا کہ شعبہ نگرانی اور ابلاغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سامان کو استعمال کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ ایک مختلف جنگ ہے۔ ہم نگرانی کے چپس، ڈرون کیمرے اور بہترین دستیاب آلات کو پہلے فورس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کر رہے تھے اور اب انہیں مختلف قرنطینہ مراکز کی حفاظت اور سیکورٹی کے لیے استعمال کر رہے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "دشمن نظر نہیں آتا۔ ہمیں نہ صرف معمول کے امن و امان کو قائم رکھنا ہے بلکہ کووڈ -19 کے حساس مریضوں کو بھی سنبھالنا ہے جو بیمار ہیں اور اس وباء کے باعث ہونے والی مشہوری پر پریشان ہیں"۔

افسران کی حفاظت

ذاتی حفاظتی سامان کی کمی سے نپٹنے کے لیے، مقامی پولیس کمانڈروں نے اپنے افسران کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنے منصوبوں کا آغاز کیا ہے اور انہوں نے سامان کے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے، مقامی طور پر تیار کردہ سامان کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

بونیر، شانگلہ اور ایبٹ آباد کے اضلاع میں پولیس افسران نیلی اور سبز وردیوں میں نگرانی کی چوکیوں پر کھڑے ہیں اور انہوں نے حفاظتی ماسک اور سامان پہن رکھا ہے جس کے باعث کووڈ -19 کے خلاف جنگ میں ان کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔

بونیر کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر سہیل خالد نے کہا کہ "ہم نے ماسک اور دوسرے سامان کے ساتھ ایک 100 سوٹ تیار کیے اور انہیں ایسے افسران میں تقسیم کیا ہے جنہیں نگرانی کی چوکیوں پر تعینات کیا جائے گا یا جو آئسولیشن کے مراکز کی نگرانی کر رہے ہوں گے"۔

انہوں نے کہا کہ مزید حفاظتی وردیوں کو تیار کیا جا رہا ہے اور آخرکار تمام فورس کے پاس مناسب سامان ہو گا۔

خالد نے کہا کہ ایبٹ آباد، شانگلہ اور دوسرے اضلاع میں پولیس فورس کو خصوصی حفاظتی سامان بھیجا گیا ہے اور مزید جا رہا ہے۔

کے پی کے وزیراعلی کے ترجمان امجد وزیر نے کہا کہ صوبائی حکومت نے طبی کارکنوں، پولیس اور ریسکیو کارکنوں کے لیے خصوصی ادائیگی کا اعلان کیا جو اس وباء کے خلاف اگلے محاذ پر لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگلے محاذ پر ہلاک ہونے والے عملے کے لیے شہید پیکیج کے علاوہ، تمام افسران کو وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ کرنے میں ان کی کوششوں پر ایک ماہ کی تنخواہ کا بونس دیا جائے گا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500