سلامتی

دہشت گردانہ حملوں میں معذور ہونے والے کے پی افسران کی نئے عزم کے ساتھ واپسی

جاوید خان

ڈی ایس پی عالم زیب خان جو خودکش بم دھماکے میں اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہو گئے تھے اور اب مصنوعی ہاتھ استعمال کرتے ہیں، 9 مارچ کو پشاور میں کار چلا رہے ہیں۔ [جاوید خان]

ڈی ایس پی عالم زیب خان جو خودکش بم دھماکے میں اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہو گئے تھے اور اب مصنوعی ہاتھ استعمال کرتے ہیں، 9 مارچ کو پشاور میں کار چلا رہے ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور -- خودکش دھماکے میں اپنا دائیاں ہاتھ کھونے کے باوجود، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) فقیر آباد، عالم زیب خان ہر روز اپنی ڈیوٹی پر جا رہا ہے۔

وہ خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس کے ان بہت سے پولیس افسران میں سے ایک ہے جودہشت گردوں کے بم دھماکوں یا دوسرے حملوں میں زخمی ہو گئے تھے مگر انہوں نے عوام کی خدمت اور صوبے کی حفاظت کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔

خان جنوری 2012 میں نوشہرہ ڈسٹرکٹ کے علاقے اکوڑہ خٹک میں ہونے والے ایک خودکش حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔

خان نے کہا کہ "ہمیں ایک خودکش بمبار کے بارے میں اطلاع ملی اور میں، اسٹیشن ہاوس افسر (ایس ایچ او) اکوڑہ خٹک کے طور پر، اپنی ٹیم کے ساتھ بسوں کو چیک کر رہا تھا جب اس نے اپنی جیکٹ کے گرد بندھے دھماکہ خیز مواد کو اڑا دیا"۔

ڈی ایس پی 9 مارچ کو پشاور میں اپنے دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

ڈی ایس پی 9 مارچ کو پشاور میں اپنے دفتر میں کام کر رہے ہیں۔ [جاوید خان]

دیگر گیارہ پاکستانی شہری زخمی ہو گئے تھے۔

خان کو اپنے دائیں ہاتھ کے نقصان اور دوسرے زخموں کے لیے چار ماہ تک زیرِ علاج رہنا پڑا تھا مگر صحت یاب ہونے کے فورا بعد اس نے دوبارہ فورس میں شرکت اختیار کر لی۔

خدمات کو سرانجام دیے جانے اور نوشہرہ، چارسدہ، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور کوہاٹ میں مہمات کی قیادت کرنے کے بعد، خان کو دسمبر 2019 میں پشاور کے فقیر آباد چوک میں ڈی ایس پی تعینات کر دیا گیا۔

خان نے کہا کہ "میں آغاز میں اپنے ہاتھ کے نقصان کو محسوس کرتا تھا مگر اب میں اس کا عادی ہو گیا ہوں اور اپنے کاموں کو ایک ہاتھ اور زیادہ عزم کے ساتھ کرنے کا عادی ہو گیا ہوں"۔

'مجھے کوئی نہیں روک سکتا'

اپنے عزم میں خان اکیلا نہیں ہے۔

مثال کے طور پر، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) گل ولی کو، گلبہار، پشاور میں زخمی ہونے سے پہلے تین مختلف حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایس ایس پی سجاد خان نے کہا کہ "ہمارے گروپ (پولیس اکیڈمی کا ہم جماعت) گل ولی جولائی 2013 میں گلبہار میں دہشت گردی کے حملے میں شدید زخمی ہو گیا تھا اور کئی سال تک زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ حال ہی میں ڈیوٹی پر واپس آ گیا ہے"۔

ولی کا ڈرائیور اور باڈی گارڈ ہلاک ہو گیا تھا۔

خان نے مزید کہا کہ "ایک ایس پی (پولیس سپرنٹنڈنٹ) امتیاز احمد 2007 میں ہونے والے بم دھماکے میں اپنی ایک آنکھ سے محروم ہو گیا تھا مگر اس نے فورس میں خدمات جاری رکھی ہیں"۔

جنوری 2007 میں قصہ خوانی بازار کے قریب ہونے والے حملے میں دوسروں کے علاوہ، کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) ملک محمد سعد ہلاک اور شیر اکبر (اس وقت ڈپٹی انسپکٹر جنرل) ڈی آئی جی) زخمی ہو گئے تھے۔

تاہم، خان نے کہا کہ "زخمی ہونے والوں میں سے جو صحت یاب ہو گئے ہیں، نے فوری طور پر اپنے یونیفارم پہنے اور امن کو بحال کرنے کے لیے میدان میں نکل پڑے"۔

عنایت اللہ خان، جو ٹائیگر کے نام سے جانے جاتے ہیں، کے پی میں بم کو ناکارہ بنانے کے ماہر ہیں،اس کی ایک اور مثال ہیں۔ وہ جنوری 2015 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں اپنی بائیں ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے۔

کے پی پولیس کے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) میں 2000 میں شامل ہونے سے اب تک، اس دلیر شخص نے 6000 سے زیادہ گھریلو ساختہ بموں (آئی ای ڈیز) اور بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کوئی بھی چیز مجھے اپنے جانیں بنانے کے کام کو انجام دینے سے نہیں روک سکتی"۔

قربانیوں پر خراجِ عقیدت پیش کرنا

مارچ 2019 میں، ٹائیگر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان کی سروس اور بیس سالہ خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا اور انہیں 500،000 روپے (3،150 ڈالر) کا انعام دیا گیا۔

سابقہ سی سی پی او پشاور قاضی جمیل الرحمان نے 2018 میں ایک پالیسی متعارف کروائی تھی کہ دہشت گردی میں شدید زخمی ہونے والے افسران کو ان کی رہائش گاہوں کے قریب پولیس اسٹیشنوں میں تعینات کیا جائے۔

رحمان نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ شہید ہونے والے اور زخمی ہونے والے فورس کے حقیقی ہیرو ہیں کہا کہ "یہ قدم ان لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اٹھایا گیا جنہوں نے پولیس فورس اور ملک میں امن کے لیے قربانیاں دی ہیں"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی قیصر خان نے کہا کہ "ایسے بہت سے بہادر افسران ہیں جو ان حملوں اور مہمات میں شدید زخمی ہوئے تھے مگر انہوں نے زیادہ عزم کے ساتھ اپنی خدمات کو سرانجام دینا جاری رکھا ہوا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 26

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہت اچھا لگا

جواب

پولیس ایک اچھا محکمہ ہے

جواب

عمدہ

جواب

Education fa field police

جواب

میں پولیس نوکری کے لئے درخواست دینا چاہتا ہوں۔

جواب

مجھے پاکستان پولیس پسند ہے۔

جواب

میں پاکستان کے لئے کام کرنے والی خاتون پولیس افسر بننا چاہتی ہوں اور خدا کی مرضی سے میں اس مشن میں کامیاب ہوں گی۔

جواب

Police ma bharthi hona ha

جواب

مجھے پولیس پسند ہے میں تم سے پیار کرتا ہوں پولیس

جواب

مجھے پولیس پسند ہے

جواب

شاندار حکمتِ عملی

جواب

پولیس ایک اچھا محکمہ ہے

جواب

مجھے پولیس سے پیار ہے

جواب

Human moter police job ki sakht zaroorat ha

جواب

مجھے پیار ہے لیکن میری پڑھائی بہت خراب ہے

جواب

اچھی ڈیوٹی

جواب

اچھے فرائض

جواب

G me apni Jan b qurban ker apne eaten ki khatir

جواب

میں ایک پولیس افسر بن کر پاکستان کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں

جواب

میں ایک پولیس افسر بن کر پاکستان کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں

جواب

میں ایک پولیس افسر بننا چاہتا ہوں

جواب

میں ایک پولیس افسر بننا چاہتا ہوں

جواب

موٹروے پولیس میں ڈرائیونگ

جواب

پولیس کے لیے پیار

جواب

Aap nai mazmoon main aim lafz ghalat leka hai Jo aap nai malak saad shaheed k saat leka hai Jaan bahaq

جواب

درست

جواب