پشاور -- پاکستانی حکومت نے نوجوانوں کی خصوصی رضاکارانہ فورس قائم کی ہے تاکہ گھروں میں موجود شہریوں کو کھانا فراہم کیا جا سکے اور کورونا وائرس کے بارے میں آگاہی کو بڑھایا جا سکے جبکہ اسی دوران بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔
عالمی پیمانے پر پھیلنے والی اس وباء سے 2,291 افراد مصدقہ طور پر ہلاک ہو چکے ہیں جن میں جمعرات (دو اپریل) تک پاکستان میں ہونے والی 31 اموات بھی شامل ہیں۔
وزیرِاعظم عمران خان نے پیر (30 مارچ) کو قوم سے کیے جانے والے ایک خطاب میں رضاکرانہ گروہ کے قیام کا اعلان کیا جسے "کورونا ریلیف ٹائگر فورس" کا نام دیا گیا ہے۔ حکام نے منگل (31 مارچ) سے رضاکاروں کی بھرتی کا کام شروع کیا۔
خان نے کہا کہ "ٹائگر فورس امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ، شہری اور عسکری حکام کے ساتھ مل کر عوام میں کورونا وائرس اور اس کے انسدادی اقدامات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کام کرے گی۔
حکومت نے کورونا ریلیف فنڈ کا آغاز بھی کیا ہے جو کووڈ- 19 وائرس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے غریب پاکستانی شہریوں کو امداد فراہم کرے گا۔
خان نے کہا کہ افراد، جن میں بیرونِ ملک رہنے والے امیر افراد بھی شامل ہیں اس فنڈ میں عطیہ کر سکتے ہیں اور انہیں ٹیکس میں چھوٹ ملے گی اور ان سے اس بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا کہ یہ پیسے کہاں سے آئے ہیں۔
حکومت کی طرف سے یہ کوششیں عمران خان کی طرف سے 25 مارچ کو 1.2 ٹریلین ڈالر (7.5 بلین ڈالر) کے مالی امدادی پیکیج کے قیام کے بعد کی جا رہی ہیں جس کا مقصد ملک کی معیشت کو کورونا وائرس کے اثرات سے بچانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
یہ فنڈ تیل کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد کرے گا اور کارکنوں کو 3,000 روپے (18.75 ڈالر) سالانہ کا وظیفہ دے گا اور برآمدکنندگان اور صنعتی شعبہ کے لیے سرمایے کی کمی کے بحران میں مدد فراہم کرے گا۔
کووڈ - 19کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پاکستان کے مختلف حصوں میں، مال، ریسٹورانٹس اور عوامی جگہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔
منصوبہ سازی کے وزیر اسد عمر نے بدھ (یکم اپریل) کو اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سطح پر کیا جانے والا لاک ڈاؤن مزید دو ہفتوں تک، 14 اپریل تک جاری رہے گا۔
پہلے ہی عسکریت پسندی سے متاثر ہونے والی آبادی
ان اقدامات کی معاشرے کے بہت سے عناصر سے تعریف کی ہے، جن میں وہ بھی شامل ہیں جو ابھی تک دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے اثرات سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان ڈسٹرکٹ سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخواہ (کے پی) کی صوبائی اسمبلی کے رکن میر کالام وزیر نے کہا کہ "کورونا وائرس انفیکشن نے دہشت گردی کا شکار بننے والے شہریوں کے مسائل میں اضافہ کیا ہے جس سے ان کا اس بیماری کا شکار بننے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے -- خصوصی طور پر وہ جو ابھی تک باقاخیل اور بنوں کے اضلاع میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں"۔
وزیر کے مطابق، تقریبا 2,000 خاندان ابھی تک، شمالی وزیرستان میں اپنے گھروں کو واپس جانے میں ناکام رہے ہیں اور باقاخیل میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں دگرگوں حالات میں رہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کورونا وائرس اس جگہ پر آ گیا تو اس کے نتائج ان کے لیے بھیانک ہوں گے جبکہ ان میں سے اکثر ابھی تک ان مصائب کا سامنا کر رہے ہیں جس کا سامنا انہیں دہشت گردی کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔
وزیر نے ٹائگر فورس کے قیام کو سراہا اور گروہ کے،عوام میں انسدادی اقدامات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے مقصد کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر نے کہا کہ دیہی علاقوں میں، کورونا وائرس کے بارے میں معلومات، صحت پر اس کے اثرات، اس کے پھیلاؤ کے ذرائع اور انسداد کے اقدامات کے بارے میں آگاہی بہت کم ہے۔
جنوبی وزیرستان ڈسٹرکٹ کے ایک شہری حیات پریگل نے کہا کہ یہ بیماری ایسی برادریوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہو گی جو پہلے ہی عسکریت پسندی کے باعث تباہی کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "میں جنوبی وزیرستان میں اپنی دکانوں اور گھروں پر عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے بموں کے حملوں سے آنے والے مصائب اور مشکلات کو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں دیہاڑی دار مزدوروں کی بڑی تعداد کے اہلِ خاندان کو اس وقت بہت زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جب حفاظتی اقدامات انہیں گھروں سے نکلنے اور کام کرنے سے روکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تک، حکومت کی طرف سے ضروریات کو پورا کرنے اور وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے کی جانی والی کوششوں نے امید پیدا کی ہے۔
مہمند ڈسٹرکٹ کے شہری محمد شفیق صافی نے کہا کہ وائرس قبائلی علاقوں میں رہنے والوں کے مشکل حالات کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "کورونا وائرس کے خوف اور پھیلاؤ نے قبائلی ارکان کے مصائب میں اضافہ کیا ہے جنہیں نقل مکانی کے دوران کیمپوں میں رہنے کے ڈراونے خواب دوبارہ یاد آ رہے ہیں"۔
صافی نے کہا کہ بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ نقل و حرکت پر پابندی ہے جس کے باعث ضروری اشیاء کی خریداری مشکل ہو گئی ہے اور کورونا وائرس کی وباء کے باعث ضروریاتِ زندگی کی کمی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی قابلِ ذکر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "حکومت کی طرف سے امدادی پیکیج اور ٹائگر فورس کا قیام کا اعلان ایسے قبائلی افراد کے لیے ایک نعمت ہے جو پہلے ہی اپنے آبائی علاقوں میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی وباء کی وجہ سے انتہائی برے حالات میں رہ رہے ہیں"۔
نادار لوگوں تک پہنچنا
پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان سماجی کارکن بلال رحمان جو کہ پہلے ہی ترس فاونڈیشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نے کہا کہ "وزیراعظم عمران خان کی طرف سے نوجوانوں کو کورونا وائرس سے جنگ کے لیے متحرک کرنا ایک خوش آئند قدم ہے اور میں اس نیک مقصد کے لیے اپنی رضاکارانہ خدمات کو پیش کرنے کے لیے تیار ہوں"۔
انہوں نے کہا کہ ترس فاونڈیشن کے ایک رضاکار کے طور پر، انہوں نے پہلے ہی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے شکار افراد کی مدد کرنے کے لیے کام کیا ہے جو اپنے آبائی علاقوں سے بے گھر ہو گئے تھے اور انہیں حکومت کی طرف سے قائم کیے جانے والے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "جب بھی حکومت کو ہماری خدمات کی ضرورت ہو گی، ہم انہیں پاکستانی حکومت اور خصوصی طور پر کے پی -- جن میں نئے انضمام شدہ قبائلی اضلاع بھی شامل ہیں --جنہیں پہلے ہی کئی دیہائیوں تک جاری رہنے والی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی لہر کے باعث ملک میں ہونے والی تباہی اور افراتفری کا سامنا کرنا پڑا ہے، کو فراہم کریں گے"۔
تاجر اور پشاور میں قبائلی ایوانِ صنعت و تجارت کے بانی حاجی غلام علی نے کہا کہ "ہلاکت خیز کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹائگر فورس کا قیام، معاشرے کے پریشان عناصر تک رسائی کے لیے ایک اچھا قدم ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی قبائلی پٹی میں معاشی سرگرمیاں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے باعث رکی ہوئی ہیں اور کورونا وائرس کے انسداد کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے صورتِ حال مزید خراب ہو جائے گی۔
علی نے کہا کہ امیر پاکستانیوں کو سامنے آنا چاہیے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ حکومت کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ضرورت مند عوام کو مکمل طور پر امداد فراہم کر سکے"۔