صحت

ایران کی ماہان ایئر کو دنیا بھر میں کورونا وائرس وبائی مرض کے پھیلاؤ میں کلیدی عنصر کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے

پاکستان فارورڈ

ماہان ایئر کی تیران سے چین کی پروازوں کے بعد کورونا وائرس سے ہونے والی انفکیشنوں میں اضافے کے درمیان، عراقی، جن میں سے کچھ حفاظتی ماسک پہنے ہوئے ہیں، 21 فروری کو نجف کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایران سے اپنی آمد کے بعد ہوائی جہاز سے نکلتے ہوئے۔ [حیدر ہمدانی / اے ایف پی]

ماہان ایئر کی تیران سے چین کی پروازوں کے بعد کورونا وائرس سے ہونے والی انفکیشنوں میں اضافے کے درمیان، عراقی، جن میں سے کچھ حفاظتی ماسک پہنے ہوئے ہیں، 21 فروری کو نجف کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ایران سے اپنی آمد کے بعد ہوائی جہاز سے نکلتے ہوئے۔ [حیدر ہمدانی / اے ایف پی]

ثبوت کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق، ماہان ایئر، جو جزوی طور پر ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستوں (آئی آر جی سی) کی ملکیت ہے، ایران میں کورونا وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں پورے خطے اور اس سے باہر مہلک وائرس کے پھیلاؤ میں ایک اہم عنصر رہی ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں نے خبریں دی ہیں کہ ماہان ایئر نے ایسی پروازوں پر ایران کی سرکاری پابندی اور صحت کی عام فہم روایات کی خلاف ورزی میں، فروری اور مارچ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے عروج کے دوران ایران اور چین کے درمیان درجنوں پروازیں چلائیں۔

ریڈیو فردا کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں "انکشاف ہوا ہے کہ 4 فروری سے 22 فروری تک ماہان ایئر نے تہران کے امام خمینی ہوائی اڈے سے کم از کم پچپن بار بیجنگ، شنگھائی، گوانشو اور شنزن کے لیے پرواز کی اور واپس ایران آئی۔"

25 فروری کی رپورٹ میں پروازوں کا سراغ لگانے والی ویب سائٹوں جیسے کہ Flightradar24 کی جانب سے معلومات شامل ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ ماہان ایئر نے اپنی چین کی پروازیں معطل نہیں کی تھیں۔

اس سال کے شروع میں سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایران میں ماہان ایئر لائن کے ملازمین کورونا وائرس سے بچنے کے لیے پورے جسم کو ڈھانپنے والے طبی سوٹ پہنے پرواز کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [فائل]

اس سال کے شروع میں سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایران میں ماہان ایئر لائن کے ملازمین کورونا وائرس سے بچنے کے لیے پورے جسم کو ڈھانپنے والے طبی سوٹ پہنے پرواز کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [فائل]

محکمۂ صحت کا ایک ایرانی اہلکار مسافروں کے جہاز پر چڑھنے سے پہلے پرواز کی جراثیم کشی کی کوشش کرتے ہوئے۔ [حسین طواہری / تسنیم]

محکمۂ صحت کا ایک ایرانی اہلکار مسافروں کے جہاز پر چڑھنے سے پہلے پرواز کی جراثیم کشی کی کوشش کرتے ہوئے۔ [حسین طواہری / تسنیم]

ایران سے جلاوطن ہونے والے افغان مہاجرین، جن میں سے بہت سے افراد پر کووڈ-19 سے متاثر ہونے کا شبہ ہے یا ان میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے، 12 مارچ کو اسلام قلعہ، صوبہ ہرات میں افغانستان میں دوبارہ داخلے کے منتظر ہیں۔ [عمر]

ایران سے جلاوطن ہونے والے افغان مہاجرین، جن میں سے بہت سے افراد پر کووڈ-19 سے متاثر ہونے کا شبہ ہے یا ان میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے، 12 مارچ کو اسلام قلعہ، صوبہ ہرات میں افغانستان میں دوبارہ داخلے کے منتظر ہیں۔ [عمر]

ایران میں فروری کا مہینہ کورونا وئرس (کووڈ-19) کے پھیلاؤ کے لیے کلیدی مہینہ تھا، کیونکہ مہینے کے وسط تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ وائرس نے ملک میں اپنے پنجے گاڑ لیے تھے۔

ایران کی سرکاری خبری ادارے ارنا نے بتایا کہ فروری میں ایرانی نائب وزیرِ صحت علی رضا رئیسی نے کہا تھا کہ قُم، جو ایران میں وائرس کی وباء کا مرکز بنا، میں وباء کا "واضح اور خصوصی" تعلق چینی مزدوروں اور طلباء و طالبات سے تھا۔

19 فروری کو حکومت کی جانب سے ملک میں کورونا کے پہلے کیس کے اعتراف کے محض دو ہی دن بعدایرانی مزدوروں کو 100 میٹر سے زیادہ لمبی اجتماعی قبریں کھودتے دیکھا گیا تھاقم میں.

اس مہینے کے آخر تک، عوام کو درست معلومات پہنچانے میںایرانی حکومت کی شفافیت میں کمیپر بین الاقوامی تشویش بڑھ رہی تھی کیونکہ ملک میں کورونا وائرس کی بے قابو وباء نے ہمسایہ ممالک اور ان سے آگے تک خطے کو خطرے میں ڈال دیا تھا -- اور نتجیتاً عفونت زدہ کر دیا تھا۔

ماہان ایئر کی پروازیں جاری رہیں

بی بی سی فارسی کی خبر کے مطابق، معلوم خطرے اور کووڈ-19 سے ہونے والی اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجود، ماہان ایئر نے مارچ میں بھی تہران اور چین کے درمیان اپنی دو طرفہ پروازیں چلائے رکھیں۔

5 مارچ کو بی بی سی نے بتایا کہ 3 فروری کے بعد ماہان کے جہازوں نے ایران اور چین کی چار منازل کے درمیان 32 مرتبہ اڑان بھری ہے۔

ایران اور چین کے درمیان ماہان ایئر کی پروازوں کے تسلسل پر ایرانی قانون سازوں اور عوام الناس کی جانب سے سخت تنقید اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔

ماہان ایئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایرانی رکنِ پارلیمنٹ بہرام پارسائی نے کہا، "ان کا جرم ماسک کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سے زیادہ سنگین ہے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ ایئر لائن اور ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (سی اے او) کی وائرس کو پھیلانے میں ان کے کردار پر لازماً تفتیش ہونی چاہیئے۔

ریڈیو فردا نے بتایا کہ مہیان ایئر نے چین کی طرف تجارتی پروازیں چلانے کی تردید کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ پروازیں "انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد" بشمول کورونا وائرس کی ٹیسٹ کٹوں اور دیگر طبی آلات کی نقل و حمل کے لیے چلائی گئیں۔

سی اے او نے ان دعووں کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ایئر لائن صرف کارگو پروازیں چلا رہی ہے۔

تاہم، ایرانی عوام اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تشویشوں کا اظہار کیا ہے۔

ایران میں ادویات اور طبی آلات -- بشمول ٹیسٹ کٹیں، چہرے کے ماسک اور سینی ٹائزر -- کی قلت کے پیشِ نظر یہ خارج از امکان ہے کہ یہ چین کی طرف صحت میں معاونت کا سامان جہازوں میں بھر کر بھیجا جا رہا تھا وہ بھی اس وقت جب ایران میں وباء تیری کے ساتھ بدتر ہو رہی تھی۔

ماہان ایئر چین کو اپنی پروازیں صدر حسن روحانی کی حکومت سے بھی اوپر کے حکام -- مثلاً آئی آر جی سی، جو کہ صرف سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی کو جوابدہ ہے -- کی جانب سے اجازت کے بغیر نہیں چلا سکتی تھی۔

پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ روابط

ماہان ایئر کی پروازوں کے تسلسل کی وجوہات قیاس آرائیوں کے نرغے میں ہیں، مگر ثبوت آئی آر جی سی کے لیے مالی فوائد اور ایرانی حکومت کے لیے سیاسی حاجت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

روئیداد 24 نے خبر دی کہ حوالہ دی گئی کئی پروازیں مبینہ طور پر بعد میں تہران سے کرمان اور اسالویاہ کے لیے اڑیں۔

ایرانی خبروں کی ویب سائٹ نے بتایا کہ ایئر لائن کرمان میں ایک کار ساز کمپنی، کرمان موٹر کو کاروں کے پرزے، اور اسالویاہ کو دیگر تجارتی سامان پہنچاتی رہی ہے، جو کہ ایک آزاد تجارتی علاقہ ہے اور یہاں ساؤتھ پارس تیل اور گیس کے پلانٹ اور ریفائنریاں ہیں۔

اس کا کہنا تھا کہ مول المواحدین خیراتی ادارہ بھی کرمان میں ہی ہے۔ "خیراتی ادارہ" آئی آر جی سی کے زیرِ انتظام ہے اور ماہان ایئر کا 100 فیصد اور کرمان موٹر کا 50 فیصد مالک ہے۔

بہت سے تجزیہ کار پورے خطے میں ایران کی ملیشیاؤں اور دہشت گردوں کو سرمایہ فراہم کرنے اور اس کی ایٹمی ہتھیار ترک کرنے کی عدم رضامندی کی وجہ سے اس کی ہمیشہ سے بڑھتی ہوئی تنہائی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

اس تنہائی کے نتیجے میں روس اور چین ایران کے بنیادی اقتصادی مراکز بن گئے ہیں، جس سے بہت سے تجزیہ کار یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آئی آر جی سی چین سے کوئی بھی تعلق توڑنے میں متعامل تھی، خواہ اس میں کوئی بھی خطرہ ہو۔

ایران وباء کا مرکز

ایرانی حکومت کے وباء سے متعلق بہت سے غلط اقدامات نے اپنے ملک کو دنیا میں کووڈ-19 عالمی وباء کے بنیادی مراکز میں سے ایک بنا دیا ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک کو بے حساب نقصان پہنچنے کا سبب بنی ہے۔

جمعہ (10 اپریل) تک، ایران میں 66،220 مصدقہ کیسز تھے، بشمول 4،110 اموات، مگر بیرونی تجزیہ کاروں کو شک ہے کہ اصل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے، جبکہ دنیا بھر میں ہونے والی 100،000 اموات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

سرحد پار پاکستان میں، کووڈ-19 کے موجودہ کیسوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ایران کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

"پاکستان میں کووڈ-19 کے مصدقہ مریضوں کا اٹھارہ فیصد ایران سے آیا تھا24 مارچ کو اسلام آباد میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خصوصی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے صحافیوں کو بتایا، " ، جس میں عوامی صحت کی ایک بین الاقوامی ہنگامی حالت سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں تھی۔"

افغانستان میں، حکام ایران سے ہر روز جبراً ملک بدر کیے گئے دسیوں ہزاروں افغان مہاجرین سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہے، جن میں سے بیشتر کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہے یا اس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔

صوبہ ہرات، جو ایران اور افغانستان کے درمیان سرحد پار کرنے کا مرکزی راستہ ہے، اب مہلک وائرس کے ساتھ افغانستان کے بحران کا مرکز ہے۔ ترکمانستان، جس کی ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد ہے، نے ایران کے ساتھ اپنے داخلی مقامات بند کر دیئے ہیں۔

خطے کے دیگر ممالک، جیسے کہ عراق، ترکی، کویت اور متحدہ عرب امارات، میں ان لوگوں کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے بہت سے عفونت زدہ شہریوں کی تعداد دیکھی گئی ہے جنہوں نے ایران کا سفر کیا تھا یا وہاں رہے تھے۔

رضاکار فوج کی ایئر لائن

کووڈ-19 پر تنازعہ وہ پہلا تنازعہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ماہان ایئر شہ سرخیوں کی زینت بنی ہے۔

ماہان ایئر، جو کہ آئی آر جی سی کی قدس فورس کے لیے معاونت فراہم کرنے پر سنہ 2011 کے بعد سے امریکی وزارتِ خزانہ کی جانب سے پابندیوںکا شکار رہی ہے، کو بہت سے لوگ "رضاکار فوج کی ایئر لائن" کے طور پر جانتے ہیں۔

آئی آر جی سی ماہان ایئر کو کئی برسوں سے افغانستان، پاکستان، عراق، یمن، لبنان اور دیگر کئی جگہوں سے بے قاعدہ جنگجوؤں کی فوج کو شام جیسے جنگی علاقوں میں لانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے جہاں وہ ایرانی حکومت کی پراکسی جنگیں لڑتے ہیں۔

ان جنگجوؤں میں سے کچھ فاطمیون ڈویژن اور زینبیون بریگیڈ کے لڑاکون میں شامل رہے ہیں، جو بالترتیب افغانوں اور پاکستانیوں پر مشتمل ہیں۔

بالکل حال ہی میں، فاطمیون کے جنگجو عالمی وباء میں ایک دلیرانہ طریقہ اختیار کرتے دیکھے گئے ہیں۔

ڈویژن نے 29 مارچ کو کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لے رہے اپنے ارکان کی بہت سی تصاویر شائع کی ہیں، جس میں بہت سی تصاویر میں جنگجوؤں کو پُرہجوم حالت میں اکٹھے اور یہاں تک کہ کشتی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس سے اس بحران کے دوران صحت کی حفاظت کے اصولوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔

دریں اثناءتہران وائرس کے ماخذوں کے متعلق سازشی نظریات پھیلا رہا ہے، ایرانی حکومت نے کووڈ-19 کی وباء کو کیسے بگاڑا ہے اس سے الزام ہٹانے کی ایک کوشش میں.

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

حکومتِ پاکستان کو ملّاؤں اور آیت اللاؤں کے زیرِ انتظام حکومتِ ایران کے خلاف پاکستان میں کرونا وائرس پھیلانے پر مقدمہ دائر کرنا چاہیئے یہ حکومت اپنے ہمسایوں اور اپنے شہریوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایران کے عوام ان تعصب پسندوں سے جان چھڑائیں

جواب